صحت و صفائی - حصہ اول

Posted on at


طہارت و پاکیزگی کی جتنی تلقین اسلام نے کی ہے اتنی کسی دوسرے دین یا تہذیب نے نہیں کی- اسلام کے اولین احکام میں پاکیزگی اور طہارت کے احکام شامل ہیں - ارشاد ربانی ہے " اے کمبل اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رہو" المدثر١-٥
اسلام میں طہارت و پاکیزگی محض نماز، تلاوت قرآن اور طواف کعبہ جیسی عبادات ہی کے لئے لازم نہیں بلکہ بجاۓ خود بھی مطلوب ہے- چناچہ قرآن نے ہمیں آگاہ فرمایا "بے شک الله تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے" البقرہ - ٢٢٢
کوئی چیز جس قدر نازک ہوتی ہے اس کی صفائی اور حفاظت کا اسی قدر اہتمام کیا جاتا ہے- پھول سے نازک بچوں کی نازک جلد کی حفاظت کے لئے خصوصی توجہ اور اہتمام کی ضرورت ہے- اس معاملہ میں بازار کی مہنگی کریم، شیمپو وغیرہ کی ضرورت نہیں گھر میں دستیاب اشیاء کو باآسانی جلد کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے
مالش
بچوں کی مالش کرنا ان کو آسودگی بخشتا ہے- مالش سے جلد میں خون کی گردش تیز ہوتی ہے جس سے جلد پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں، مالش کے لئے گھر میں موجود کوئی سا تیل، گھی یا دودھ کی بالائی استعمال کئے جا سکتے ہیں- غسل سے پہلے بچے کے پورے جسم پر مالش کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے لپیٹ کر رکھیں



غسل
چھوٹے بچے کو ہر روز غسل کروانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسا کرنے سے جسم کی نشوونما بہتر ہوتی ہے- غسل بچوں کی مخصوص مہک کو خوشگوار رکھنے میں نہایت اہم ہے- صاف ستھرے بچے کو گود لینے اور پیار کرنے کو بے اختیار جی چاہتا ہے- بچپن سے صفائی کی عادت ان کی آئندہ زندگی پر بھی مثبت نتائج مرتب کرتی ہے
غسل کو بچے کے لئے بھی خوشگوار عمل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پانی کا درجہ حرارت موسم کے مطابق مناسب ہو- نہلانے کے لئے ایسی جگہ منتخب کی جانی چاہیے جہاں باہر سے ہوا نہ لگے اور بچہ گرمی سردی سے متاثر نہ ہو
اسلام میں پسندیدہ بات یہ سمجھی گئی ہے کہ غسل سے پہلے وضو کیا جاۓ- غسل سے پہلے وضو سے نہ صرف سنت نبوی (ص) پر عمل کا اجر ملتا ہے بلکہ سائنسی لحاظ سے بھی یہ بات نہایت اہم ہے کہ جسم کو ایک دم (ماحول سے کم یا زیادہ) نۓ درجہ حرارت میں نہ رکھ دیا جاۓ بلکہ رفتہ رفتہ اس کا عادی بنانا چاہیے غسل سے پہلے وضو کے اعضاء دھونے سے جسم کے نسبتاً کم حساس حصے پانی کے درجہ حرارت سے مانوس ہو جاتے ہیں اور یوں پورا جسم اس درجہ حرارت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے
بچوں کو نہلاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ایک دم ان پر پانی ڈالنے کے بجاۓ پہلے ان کے ہاتھ دھلواۓ جائیں بلکہ زیادہ مناسب یہ ہے کہ انہیں پانی میں کچھ دیر بیٹھ کر کھیلنے دیا جاۓ، تین چار ماہ کی عمر سے ہی بچے پانی سے کھیل کر بہت خوش ہوتے ہیں



پانی میں ہاتھ مار مار کر چھینٹے اڑانا بچوں کا محبوب مشغلہ ہے- ان کی اس فطرت سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ غسل کا کام ان کے لئے ایک خوشگوار کام بنایا جا سکتا ہے- تاہم یہ ضروری ہے کہ بچے کو پانی کے ٹب کے پاس ایک لمحہ کے لئے بھی اکیلا نہ چھوڑا جاۓ اور نہ ہی انہیں غسل خانے کے چکنے فرش پر بھاگنے دیا جاۓ کہ پھسل کر گر جائیں
منہ پر صابن لگانا بچوں کو بہت ناگوار ہوتا ہے- بہت چھوٹے بچوں کو نہلانے کے بعد اپنے بازو پر الٹا لٹا کر منہ پر صابن لگا کر فوراً دھو دینے سے آنکھوں اور منہ کے اندر صابن والا پانی جانے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں، ایک سال سے بڑے بچے چند لمحوں کے لئے آنکھیں بینڈ رکھ سکتے ہیں تاہم چہرے پر صابن لگا کر فوراً دھو دینا چاہیے تاکہ آنکھوں میں صابن جانے کا امکان کم سے کم ہو
طہارت
رفع حاجت سے فراغت کے بعد طہارت کو اسلام نے لازم قرار دیا ہے- بچوں کو ابتدا سے ہی اس کا عادی بنانا چاہیے- بچہ جب بھی پیشاب یا پاخانہ کرے کوشسش کیجۓ کہ اسے استنجا کروا دیا جاۓ اسی طرح پیشاب سے گیلے ہونے والے کپڑے فوراً تبدیل کر دینے چاہئیں- پیشاب یا پاخانہ میں ایسے تیزابی مادے پاۓ جاتے ہیں جس سے بچے کی نازک جلد بڑی جلدی متاثر ہو جاتی ہے- چناچہ گیلے کپڑے کو بدلنے میں دیر یا استنجا نہ کروانے کی صورت میں جلد اکثر متورم رہتی ہے یا اس پر دانے نکل آتے ہیں جو بچوں کا اہم مسلہ ہے اور اس کی زیادہ تر وجہ طہارت کے معاملے میں تسائل برتنا ہے- اسی طرح بچوں کو "پیک" کر کے رکھنا کہ ان کا پیشاب وغیرہ سے بستر قالین وغیرہ خراب نہ ہو کوئی زیادہ اچھی بات نہیں، تاہم سفر یا کسی دوسری مجبوری کے باعث تھوڑی دیر کے لئے ایسا کیا جاۓ تو کوشسش کی جانی چاہئے کہ گیلی نیپی فوراً بدل دی جاۓ- تاکہ جلد پر اس کے ناخوشگوار اثرات نہ پیدا ہوں- دن میں ایک آدھ مرتبہ طہارت کے بعد سرسوں کا تیل لگا دینے سے بھی جلد محفوظ رہتی ہے




About the author

160