خاندانی مسائل ، عورت کے حقوق

Posted on at


خاندانی مسائل ، عورت کے حقوق


   عورت  پر مذہب  کیا سماجی اثرات مراتب کرتا ہے ۔ ایک وقت تھا عورت واقعی دنیا میں زرعی انقلاب سے پہلے  سربراہ کے رتبے پر فائز تھی اور اس انقلاب کے بعد  عورت کی حثیت صرف گھر تک محدود کیونکر ہو کر رہ گئی ، اور جائیداد کی طرح مرد کی ذاتی ملکیت کیسے ٹھیری۔  کیا وجود زن کا مقام تصویر کائنات میں رنگ بھرنے کے علاوہ تصویر کی تعمیر میں کوئی بنیادی کردار ہے یا نہیں۔


 


ہم دنیا کی جن معاشرتی اقدار کا مطالعہ کرتے ہیں   اس کو اصل پس منظر میں دیکھنا چاہیے جب مذہب کا لفظ استعمال عورت کے لئے کیا جائے تو ظاہر ہے تو معاشرتی مراتب کو اسی تناظر میں دیکھا جائے گا دنیا میں مذاہب الہامی بھی ہیں صوفیانہ عقائد پر بھی ہیں۔ عورت کے مطالق  کیا کہتا ہے قرآن مجید میں عورت  کے مطالق کیا فرمان ہے اور اُس کے کیا فرائض اور حقوق ہیں اور رسالت مآب ﷺ نے عورت کے مطالق کیا ہدایات کی ہیں عورت کو کیا حثیت دی ہے اس بات سے قطع نظر کہ ہمارے معاشرے میں عورت کا کیا مقام ہے اور قدیم زمانوں میں اس کی کیا صورت حال رہی مذہبی اثرات کس حد تک اثر انداز ہوئے یا نہیں ہوئے جب ان کو الگ الگ کر کے دیکھا جائے تو شاہد سمجھنے میں آسانی ہو جائے جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے تو اُس نے قرآن مجید میں واضح طور پر بتا دیا ہے کہ پوری انسانیت کو آدم و حوا سے پیدا کیا گیا ہے یہ بتا دیا ہے کہ دوںوں کی تخلیق نفس واحدہ سے ہوئی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جان سے ایک ہی جنس سے ان دونوں کو پیدا کیا ہے دوںوں انسانی شرف کے لحاظ سے بالکل برابر ہے دونوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز بخشا ہے اور شعور دیا ہے بات کو سمجھنے کی صلاحیت دی ہے عقل و فہم دیا ہے ارادہ اور اختیار کی طاقت دی ہے اس معاملے میں دوںوں کے  مابین کوئی فرق نہیں ہے  دونوں اپنی خلقت کے لحاظ سے اللہ کے آگے جواب دہ ہیں۔  دوںوں کو اس دنیا میں ایک اخلاقی کردار ادا کرنا ہے  اور خالص فلسفے اور حکمت کی سطح پر قرآن مجید میں اللہ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ انسان ہونے کے لحاظ سے دوںوں کے مابین کوئی فرق نہیں ہے یہ جو عمومی تصور مذہبی حلقوں میں پایا جاتا تھا کہ عورت مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے اس کی بھی نفی کردی ہے اور واضح کر دیا ہے کہ ہم نے تمھیں نفس واحدہ سے پیدا کیا ہے  پھر یہ بتایا ہے کہ دونوں  ایک ہی طریقے سے پیدا کئے گئے ہیں اور دونوں سے نسل انسانی چلی ہے اس کو سورہ نساء میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے بلکہ تخلیق کا پورا مقدمہ ہی بالکل دوسرے  طریقے سے قرآن مجید میں پیش کیا گیا ہے  جس طرح سے عام مذہبی لوگ سمجھتے ہیں تو فلسفہ اور حکمت کی سطح کے اوپر اللہ نے ان تمام تصورات کی نفی کر دی ہے جو توہمات مذہبی اور سماجی حلقوں میں عورت کے مطالق پائے جاتے تھے۔ ایک جگہ کھڑا کیا ہے  دوںوں کو یکساں محصول ٹھیرایا ہے دوںوں کو ایک اخلاقی وجود دیا ہے  اور دوںوں کو اخلاقی وجود کے لحاظ سے دنیا میں اپنا کردار ادار کرنے کو کہا ہے  صلاحیتوں کے لحاظ سے عقل و فکر کے لحاظ سے قرآن مجید میں کسی جگہ بھی ان کے مابین تفریق کا بیان نہیں ہے پہلے تو بنیادی بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کیا چیز ہے اس کے بعد وہ روابط اور تعلقات پیدا ہوتے ہیں جن روابط  اور تعلقات پر تہذیب وجود میں آتی ہے ان کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے  کہ فلسفے اور حکمت کی سطح سے زرہ نیچے اتر کر زندگی کے عمومی حقائق کا مطالعہ کیا جائے یعنی جب کسی چیز کو سمجھنا چاہیے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ بحثیت مجموعی اس دنیا کی کیا سکیم ہے جس کو لے کر جانا چاہیے۔ دنیا کی جس سکیم کو آپ قبول کرے گے اس کے مطابق ہی درحقیقت قوانین اوراحکام وجود میں آئے گے۔ زرعی انقلاب سے پہلے یا بعد میں یا موجودہ دور میں سماجی حالات تبدیل ہوئے ہیں سماجی حالات کے مطابق مردوں اور عورتوں دوںوں کی ذمہ داریوں میں فرق آیا ہے  بہت سے ایسے معاملات پر اثرات پڑے ہیں جو اب سے پہلے نہیں تھے جو بالکل ایک الگ داستان ہے اس کو ہمیشہ مذہب کی اصل تعلیم سے الگ کر کے دیکھنا چاہیے ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی مذہب اپنی تعلیم پیش کرے کوئی نظریہ تعلیم پیش کرے تو انسان اسے اسی خالص حالت میں ملحوظ رکھتے ہوئے اسے آگے بڑھائے انسان اس میں آمیزش بھی کرتا ہے  سماجی حالات کے مطابق اس کو بگڑاتا بھی ہے اور مسخ بھی کرتا ہے۔   عورتیں مرد کی کھیتیاں ہے جو قرآن مجید میں بیان ہے جو ایک استعارہ ہے جو بڑا خوبصورت استعارہ ہے ، قرآن مجید میں ایک دوسرے جگہ بیان ہے عورتیں تمھارے لئے لباس ہیں اور عورتوں کے لئے تم لباس ہو۔ قرآن مجید جب جنسی معاملات پیش کرتا ہے تو اس کی تدبیریں تشبیع اور استعاروں پر مبنی ہوتی ہیں کہ تہذیب کے ساتھ معاملہ بیان ہو جائے مرد اور عورت کے تعلق سے زندگی کا جو پھیل ملتا جو ہماری جھولی میں آتا ہے وہ اسی رشتے سے آتا ہے ۔



رشتوں کے وجود کو لانے کا کیا مقصد ہے ۔ اس دنیا کے اندر انسان کی پیدائش کا معاملہ ایسا ہے کہ وہ آسمان سے بیس سال کی عمر میں نازل نہیں ہوتا اور پچاس ساٹھ سال کی عمر میں جوانی کے مزے لوٹ کر رخصت نہیں ہوتا۔ انسان ایک ناتمام بچے کی صورت میں وجود میں آتا ہے اٹھ بھی نہیں سکتا بیٹھ بھی نہیں سکتا اپنی کوئی خوائش بھی بیان نہیں کرسکتا اپنی ناگریز ضرورتوں کو بھی پورا نہیں کرسکتا کھانے کے لئے محتاج پینے کے لئے محتاج ، آپ اگر کسی جانور کے بچے کو دیکھے تو وہ پیدائش کے فوراً بعد دو تین گھنٹوں میں گر کر کھڑا ہونے کی کوشش کے بعد دوڑنے لگتا ہے۔ انسان کے بچے میں یہ صلاحیت پیدا ہونے میں بھی ایک دو سال لگتے ہیں۔ انسان کا بچہ لڑکپن کے مراحل سے گزرتا ہے تعلیم و تربیب کا محتاج ہوتا ہے جس کی ذمہ داری والدین پر ڈالی گئی ہے ، یہ ذکر شوہر اور بیوی کے تعلق کا ہو رہا ہے اور ذمہ داریوں کی کیا تقسیم ہے۔ یہ تعلق قائم ہونے کی صورت میں شوہر کے اوپر کیا ذمہ داری ڈالی گئی ہے تمام اخراجات کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے  کما کر اُسے لانا ہے  بیوی کو کمانے سے روکا نہیں گیا لیکن اس کے اوپر ذمہ داری نہیں ہے جو کما کر نہیں لاتا ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا محصول اور جواب دہ ٹھیرایا جائے گا اس مقام کی خاطر شوہر کا کچھ اخیتارات دیئے گئے ہیں ان اختیارات میں ایک مسلہ پیدا ہوتا ہے بعض اوقات ایک عورت شادی کر لیتی ہے ، بچے پیدا ہو گئے ہیں گھر بند گیا ہے اس کے بعد وہ گھر کا مانے سے انکار کر لیتی ہے گھریلو ذمہ دایوں کو پورا کرنے سے انکار کر دیتی ہے  وہ شوہر کو شوہر تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے یہ حادثہ روز ہوتا ہے جب ایسے حالات پیدا ہو جائے تو کیا کیا جائے تو طلاق بولے تو ہر حال میں ایسا ممکن نہیں ہوتا بچے ہوتے ہیں اُن کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ازواجیت میں آنے سے پہلے بہت سے  وعدے کئے جاتے ہیں بچیاں ہوتی ہیں جن کو کل گھر سے اٹھانا ہے  اصل میں جب ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں یہ سمجھتے ہیں سب کچھ ہمارے حق میں ہو جائے گا، معاشرہ ہمارے بیچ ہوتا ہے  ایسی صورت حال میں قرآن مجید نے مرد کو صلاح کو مقدم رکھنے کا کہا ہے  صلاح کی کوشش کی تلقین کی گئی ہے اس کوشش کا ایک طریقہ کار واضح کر دیا ہے یوں نہیں کہ وہ تشدد کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے قرآن مجید میں یہ بتایا گیا ہے اگر بیوی سرکشی پر اتر آئی ہے کسی حال میں اپنی ذمہ داریوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے  تو پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اُن کو سمجھاؤ ، نصیحت کرو یہ دو لفظ قرآن نے بیان کئے ہیں جن کا مفہوم محدود نہیں ہے اس میں خاندان کو ملوث کرے گے اپنی ماں سے کہے گے اپنے بہن سے کہے گے آپ اس کے ماں باپ سے رجوع کرے گے  یہ سارے طریقے اخیتار کرنے کے باوجود ناکام ہو گے اور کوئی صورت نہیں بنی اس کے بعد بھی کسی غیر معمولی اقدام سے احتیار بھرتی جائے اس کا دوسرا مرحلہ یہ ہے وجوع ھنا فی مناج ، اُن کو اُن کے بستروں پر تنہا چھوڑ دو ۔ یہ علیحدگی ہو سکتا ہے گھر کی حثیت بحال کر دے گھر کو بجانے کے لئے آمادہ ہو جائے اگر اس طرح بھی کوئی اصلاح نہیں ہوئی تو پھر تیسرے مرحلے میں حکم ہے کہ آپ تادیب کر سکتے ہیں اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تادیب کرنا اس مقصد کے لئے ہے تا کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس گھر کو بچا لیا جائے جس طرح بیٹا باپ کی تادیب کر سکتا ہے اسی طرح بیوی شوہر کی تادیب کر سکتی ہے کہ مراتب کا فرق ہے جس کا سبق اسلام نے مسلمانوں کو دیا ہے لیکن دور حاضر کی مغربی تہذیب سے مراتب کا فرق ختم ہو گیا ہے  ہمارے ہاں ایک طبقہ  مغرب کی تقلید کررہا ہے اور مسلمانوں کے معاشرے  میں مراتب کا فرق ختم کرنا چاہتا ہے ۔ اس کی مثال یہ ایک حاضر ٹریفک پولیس گاڑی روک لیتا ہے اس کے جواب میں ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا اس کی پیٹی اتر جانی چاہیئے اس کا طریقہ کار ہو گا اسی طرح شوہر کو اختیارات ملے گے باپ ہونے کے ناطے سے ۔ اسی طرح بیوی بھی تادیب کے لیے معاشرے کو مخاطب کر سکتی ہے ۔



میاں بیوی کا رشتہ خاندان کا ایک ادارہ ہے  اداریں فیصلوں پر چلتے ہیں اس کے اندر بچوں کے اخراجات اٹھانے ہیں ان معاشی ذمہ داریوں کا خاوند جواب دہ ہے جس وقت مرد طلاق دیتا ہے توعورت مقدمہ  معاشرے اور عدالت میں پیش کرتی ہے  وہ بچوں کے اخراجات مانگتی ہے اس وجہ سے خاندان کا سربراہ طلاق دیتا ہے اور عورت اس کا مطالبہ کر سکتی ہے ، ایک میاں اور بیوی کا تعلق قائم ہوا تو کس کے اوپر بچوں کی کفالت کی ذمہ داری ہے مرد کے اوپر ہے کہ عورت کے اوپر ہے عورت گھر سنبھالتی تو ٹھیک ہے لیکن معاشی ذمہ داریاں مرد کے اوپر ہیں ، اسلام میں گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی لیکن معاشرتی تقاضا ہے تو میاں بیوی کو مل کر کرنی ہے لیکن سربرائی گھر جیسے اداریں کے لئے مرد کو ذمہ داری سونپی گئی ہے رشتوں کا تعلق اور مراتب کا درس اسلام میں غیر معمولی ہے جس کا تقدس ہر صورت لازمی ہے جو ہمارے مذہب کی تعلیم ہے۔  اختیارات کے بغیر گھر کا نظام نہیں چل سکتاہے۔


 



160