ظلم کی اندھیر نگری چھٹ جائے گی

Posted on at


ظلم کی اندھیر نگری چھٹ جائے گی


پاکستان کو اس وقت معاشی سیاسی معاشرتی لحاظ سے تاریخ کے ابتر حالات کا سامنا ہے جس کا سارا ملبہ موجودہ رائج الوقت نظام حکومت پر ہے جو قیام پاکستان سے پہلے غلامیت کے دور کا ہے۔ بظاہر پاکستان کا دستور عوامی حقوق کا دفاع تو کر رہا ہے لیکن یہ سارا صرف کاغذوں کی حد تک ہے اس کی عملی شکل دور تک نہیں دیکھی جا سکتی۔ عدالتیں عوام کو بروقت فوری اور سستا انصاف پہنچانے کی صلاحیت سے محروم ہیں انصاف کا یہ عالم ہے کہ اب اس کی نیلامی سرعام منڈیوں میں کی جاتی ہے جس کی بولی اونچی ہو گی وہ انصاف کو باآسانی خرید سکتا ہے۔ عدالیتں کہنے میں آزاد ہیں لیکن براجمان منصف ملزم اور مدعی کو پیسوں سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں،



 



پاکستان میں سقوق ڈھاکہ کے بعد نظام حکومت کو جمہوری رویوں میں ڈھالنے کی عملی لیکن ناکام کوشش کی گئی جس میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ اور سرمایہ داری مراعات کا خاتمہ کرکے حقوق کو عام آدمی تک پہنچانا تھا لیکن ملک میں جاگیراری کی جڑیں قیام پاکستان کے بعد ہی پھر سے مضبوط ہونے لگے تھی جب دوبارہ ملک کے اقتدار کی باگ دوڑ کی رسیاں جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرداروں کے ہاتھ میں آ چکی تھیں یاد رہے یہ وہی لوگ تھے جو فرنگی دور میں بھی مراعات یافتہ تھے۔ یہ لوگ اپنے اقتدار کے آگے عوامی حقوق کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے اس طبقے نے عوامی استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ملک خدادار جو لاکھوں کے مقدس لہو سے وجود میں آیا اس میں عوامی خواہشات کے برعکس ایسے نظام کو لایا گیا جو سرمایہ دار ، جاگیردار کا دفاع کرتا ہے اور ابھی تک کر رہا ہے ، آپ کیا سمجھتے ہیں قومی ایوانوں میں بیھٹے لوگ عوامی حقوق کی بات کرنے بیٹھے ہیں جو صحرا میں سیراب نظر آنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس میں شک نہیں اب عوام میں اس کا شعور آگیا ہے اب ان جاگیرداروں اور سرمایہ دار لوگوں کی ایوانوں میں بیٹھنے کی کوئی گنجائش کی کوئی صورت نہیں، ایسے لوگ جنہوں نے ملک میں انصاف کو گروی رکھا ہوا ہے ایسے لوگ جنہوں نے بے ڈھرک قرضوں کے بوجھ سے عوام کا وقار ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مجروح کیا ہے ایسا ملک جہاں پر قدرت مہربان ہے وہاں ظالموں نے عوام کو ظلم و ستم کا شکار کیا ہے ۔



 



آبادی کے تناسب سے نئے صوبے بنانا عوامی ضرورت ہے جسے اشرافیہ بنے نہیں دیتی ، آبادی کے تناسب سے عدلاتوں کا نظام یونین سطح پر لانے کی ضرورت ہے لیکن حکمران اشرافیہ اس میں رکاوٹ ہے بجلی کی بحرانی کفیت کو دور کرنے کے لئے نئے ڈیموں کی ضرورت ہے لیکن حکومتی اشرافیہ بنے نہیں دیتی۔ ان لوگوں سے جان چھڑانے کے لئے واحد راستہ یہی ہے لکھاری اپنے قلم کو موجودہ نظام کی خامیوں کو لکھے اور تحریک منہاج القرآن اور پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں جا کر دھرنوں میں شریک ہوں جس طرح تحریک پاکستان کے دوران لاکھوں نے قربانیاں دیں ہیں محص زمین کا ٹکرا لینے کے لئے اب عوام کو اپنے حقیقی حقوق اور اصل آزادی کے ثمرات کے لئے پھر سے ایک بہت بڑی قربانی دینی ہو گی نام نہاد مولویوں جاگیراروں اور سرمایہ داروں کا کڑا احتساب کرنا ہوگا اور انہیں باگنے کا موقعہ کسی صورت نہیں دینا۔ اب کی بار ظلم کی اندھیر نگری کا خاتمہ ہے



160