پاکستانی بچے قوم کا مستقبل

Posted on at



ہمارے اکثر بچے غیر شریفانہ زندگی بسر کرنے والوں کے  ہتھے چڑھ جاتے ھیں ۔ وہ ان کو سبز باغ دکھا کر ان سے مجرمانہ کام کرواتے ھیں ۔ بچوں کو جو فلمیں دیکھنے کو اور اخلاق سوز ادب پڑھنے کو دیا جاتا ھے ،وہ ان کے لئے زہر ھے اکثر والدین لاڈ پیار کی اڑ میں اپنے بچوں کو کسی قسم کا سخت کام نہیں کرنے دیتے ۔ یہ بچے بڑھے ہو کر کسی قسم کا سخت کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور مصیبت کے وقت میں کسی قسم کی قوت برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے کبھی سخت کام کیا ہی نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی استاد کسی بچے کو کام نہ کرنے کی وجہ سے سزا دے تو اس کے والدین اس کے خلاف احتجاج کرتے ھیں ۔ بعض طالبعلم اپنے غنڈے سرپرستوں کو درسگاہوں مین بلا کر اساتزہ کو مرعون کرنے کی کوشش کرتے ھیں ۔۔

۔۔۔۔والدین کی روش اور ملک کی عام فضا سے یہی معلوم ہوتا ھے کہ بچوں میں زمہداری کا احساس پیدا کرنے کی بجائے ان کو اول درجے کے غیر زمہ درانسان بنایا جا رہا ھے ۔ اگر وہ زمہ داری کو مھسوس کرنے لگیں تو کمرہ امتحان میں پستول  نکال کر میز پر رکھنے کی بجائے سال بھر اوارہ گردی کو چھوڑ کر مطالعہ کریں ۔۔۔۔۔ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک ہو رہا ھے کیونکہ اج کل لوگ تعلیم کو کاروباری چیز سمجھنے لگے ھیں ۔ تقریبا ہر لڑکے کے زہن میں یہ بات پیدا کر دی جاتی ھے کہ غلط زرائع سے امتحان پاس کیا جا سکتا ھے ۔ وہ محنت سے بھاگنے لگتے ھیں ۔ وہ اگر امتحان میں پاس ہی ہو جائیں ،ان میں محنت کرنے کی لگن کتم ہو جاتی ھے ۔ ایسے بچے زندگی کے کسی شعبے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ دشمن کا مقابلہ کرنا بڑی بات ھے ، ایسے بچے مستقبل کے شہری بن کر دفتروں کے کامیاب کلرک بھی نہیں بن سکتے ۔۔۔

۔۔بچے اپنی ماں کی جان ہوتے ھیں ۔ مگر اب تو اپنے بچوں سے نفرت عام ہو رہی ھے ۔ نئی روشنی والی عورتیں بچے پیدا کرنے کے نام سے کوسوں بھاگتی ھیں ۔ لوگ پیدائش کو ایک بہت بڑا جرم خیال کلرتے ھیں اور کہتے ھیں کہ زیادہ بچوں کی پرورش ناممکن ہو جائے گی ۔ مگر اتنا تو سوچوں کہ بچے اگر کم ہوں گے تو ائندہ زمانے میں ایک ہی جنگ سے ہمارا ملک مردوں سے خالی ہو جئے گا ۔ انگلستان نی دوسری جنگ عظیم میں اس کا مزہ چکھ لیا ھے ۔۔۔۔۔۔بچوں کے ساتھ ایک اور بہت بڑا ظلم کیا جا رہا ھے ۔ یہ ظلم کھاتے پیتے گھروں میں زیادہ اور عام ھے ۔ اکثر لوگ اپنے بچوں کو جنم دے کو ان کو اپنے نوکروں کے حوالے کر دیتے ھیں ۔ یہ لوگ اپنی اولاد کو اپنی حقیقی محبت کی بجائے صرف روپے کے زور سے پالتے ھیں ۔ ایسے بچے بڑے ہو کر پیار محبت بلکہ انسانیت کے جزبے سے بھی عاری ہوتے ھین ۔ یہ لوگ یورپ کی تقلید کرتے ھیں مگر یہ بات بھول جاتے ھیں کہ یورپ میں معاشی دباوٗکی وجہ سے بچاری عورتیں بھی اپنی روزی کمانے کے لئے مجبور ھیں ، ،اس لئے وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پرورش گاہ چھور اتی ھیں ۔ یورپی ملک بچوں کی دیکھ بھال کے لئے اور بچوں کی پرورش کے لئے بےحساب روپیہ خرچ کر رہے ھیں ۔ بڑے بڑے اولی دماغ ان کے متعلق سوچ بچار کر کے اپنے بہترین نتائج بچوں کی پرورش پر صرف کرتے ھیں مگر افسوس ہم نے اپنے مستقبل کے معماروں کے متعلق کبھی نہیں سوچا ،نہ جانے ہمیں اپنے بچوں کی عظمت و اہمیت کا احساس کب ہو گا ۔



About the author

amjad-riaz

you can ask me

Subscribe 0
160