ذیابیطس

Posted on at


دنیا بھر میں تیزی سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے امراض کی بات کی جائے تو ذیابیطس کے بغیر یہ تذکرہ ادھورا ہی رہتا ہے۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مرض ہزاروں سال سے موجود ہے، تاہم آج دنیا بھر میں اس مرض کی شدت میں جو اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ذیابیطس کو خاموشی سے جسم میں اپنی جگہ بنانے والا مرض ہی سمجھا جاتا ہے جو کہ اگر ایک بار اپنی جگہ بنالے تو پھر اس کا ساتھ چھوٹنے والا نہیں ہوتا، انسان کو اسی کے ساتھ رہ کر زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ معالجین کہتے ہیں کہ مرض کوئی سا بھی کیوں نہ ہو ہماری غذائی عادات اور خوراک اس کی کسی حد تک ذمہ دار ہوتی ہیں۔


 


اگر کوئی مرض لاحق ہو جائے اور پھر پرہیز نہ کیا جائے تو اچھی سے اچھی دوا بھی کارگر نہیں ہوتی۔ یہی حال ذیابیطس کا بھی ہے۔ اگرچہ یہ مرض نہایت خوفناک تصور کیا جاتا ہے تاہم معالجین کہتے ہیں کہ اگر غذائی عادات کو قابو میں کر لیا جائے اور ورزش کا راستہ اپنا لیا جائے تو دوا کے بغیر بھی پرسکون اور معمول کی زندگی بسر کی جا سکتی ہے، لیکن اگر ان سب سے غفلت برتی جائے تو پھر ذٰیابیطس زندگی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ جوں جوں بیماریاں دریافت ہوتی جا رہی ہی، ان کے علاج کی تلاش بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے سالوں میں معالجین اس مرض کا بھی کوئی شافی علاج دریافت کر لیں گے۔


 


لیکن اس وقت ذیابیطس کے مریضوں کی صحت کی بحالی کے لیے انسولین کا دنیا بھر میں استعمال عام ہے اور اب چونکہ پوری دنیا کے صحت سے متعلق ادارے اس مرض کی جانب توجہ دے رہے ہیں تو اس سلسلے میں ہر سال ۱۴ نومبر کو ‘‘عالمی یوم ذیابیطس’’ بھی منایا جانے لگا ہے۔ ۱۴ نومبر کا دن اس لیے بھی منتخب کیا گیا ہے کہ یہ تاریخ انسولین کے معاون موجد سر فریڈرک بیٹنگ کا یومِ پیدائش بھی ہے۔ ذیابیطس کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مرض سے بچاؤ اور اگر لاحق ہو جائے تو اس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے بارے میں عوامی شعور میں اضافہ کیا جائے۔ تاکہ اس مرض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔



 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160