اسلام کا نظریہ اخلاق دین سے الگ کسی اور چیز کا نام تو نہیں ہے بلکہ یہ دین ہی کا ایک حصہ ہے۔ اس کی بنیاد بھی بالکل وہی ہے جو خود دین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات ایک مقصد کے لئے بنائی ہے۔
خدا نے انسان کو اپنا نائب بنا کر دنیا میں بھیجا ہے اور اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اس دنیا کی چیزوں کو احکامِ الٰہی کے مطابق استعمال کرے۔ وہ اپنی ہر نیکی اور بدی کے لئے خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ یہ دنیا عمل کا گھر ہے جزاء و سزا اور بدلے کے لئے دوسرا جہان مقرر ہے۔
اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ خدا کے مقرر کردہ رسولوں نے نیکی و بدی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے مطابق نیکی کو اختیار کریں اور برائی سے بچیں۔ نیک صفات مثلاَ انصاف ،صداقت، شجاعت، وعدہ وفائی، اور ہمدردی کو اپنائے خود بھی اس پر عمل کرے اور دوسروں کو اس پر چلنے کی تلقین کرے۔ کیونکہ خدا کے پیغمبروں کی بھی یہی صفات ہیں۔
اور وہ صفات جنہیں انسان بُرا سمجھتا ہے مثلاَ جھوٹ، دغا بازی، ظلم و ستم، بدعہدی، تنگ دلی، بزدلی، بد دیانتی وغیرہ اسلام نے ایسی بُری صفات سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔
اسلامی نظریہ اخلاق میں انسان کا بلند ترین مقصد رضائے الٰہی کا حاصل کرنا ہے۔ نیکی کو اختیار کرنے اور بُرائی سے بچنے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں انسان کی ذاتی غرض شامل نہ ہو بلکہ یہ سب کچھ خدا کی رضا کے لئے ہو۔