پاکستان کا دوسرا مارشل لاء ، ہم نے کیا کھویا، کیا پایا۔

Posted on at


پاکستان میں فوجی حکومتوں میں نظم و ضبط ، منیجمنٹ اور نظریات تو نظر آتے ہیں جو ملک کے ںظام کو چلانے اور قانون کی بلادستی کے لئے ضروری ہیں۔ لیکن فرد واحد کی حکومت کا  دوسرا رخ دیکھا جائے جس میں عوامی فیصلوں ، مشوروں ، عوام کے مفادات کو نظر انداز کر نے سے ملک و قوم کو کیا نقصانات ہوتے ہیں اور ہماری معاشرتی اور معاشی زندگیوں پر اس کے کیا منفی اثرات پڑتے ہیں۔

دوسرے مارشل لاء کا سب سے بڑا برا کام امریکی استعماری طاقت کی خاطر افغان جنگ میں کود جانا ہے۔  اور ہمارے وطن عزیز کو  روس کے خلاف امریکی جنگ کی خاطرملک کو سکرپ بنا دیا۔  اور سب سے بڑا المیہ اس نے ہمارے مدارس جو پیام امن ، محبت  اور عظیم علم کے داعی تھے ان کو مجاہدین کی فیکٹریاں بنا دیں اور انھیں فنڈ دیئے۔ ہماری ایجنسیاں ملک میں مدارس بناتی رہی اور یہ مدارس اسلام کے نام پر بچوں کو بھرتی کرتی رہیں اور یہ بچے افغانستان میں اسلام کے نام پر امریکی جنگ میں جانوں کا نزرانہ پیش کرتے رہے۔  مزید المیہ یہ کہ ان نزرانوں کا نزرانہ ہمارے جرنیل وصول کرتے رہیں۔

ہمارے فوجی حکمران اپنی روایت کے مطابق دور رس سوچ سے عاری ہوتے ہیں۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ افغان جہاد کے بعد مدارس اونر اور ان سے عسکری تربیت پانے والے کارکنان کا کیا ہو گا۔ اور جب یہ اپنے ہی لوگوں کے لئے مسائل پیدا کرے گے اور قتل و عام،  لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیں گے تو ان سے کیسے نبٹا جائے گا۔

اس جنگ نے اور اس کے بعد ملک کے اندر خانہ جنگی نے ہماری معاشرتیوں زندگیوں کا ان گنت نقصانات کئے ہیں۔ کہیں فوجی اپریشن کی خاطر مقیمی کو ہی مہاجروں جیسی زندگیاں گزارنا پڑ رہی ہیں اور کئی خودکش دھماکوں سے قیمتی جانوں کا ضیاع اور اس ملک میں انسانی زندگی کی قدروقیمت ختم ہو گئ ہے۔   

غیر قانونی اسلحے کی سرعام اور بے دریغ فروخت نے شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور افغانستان سے سمگل منشیات کے دھندے نے شہریوں کی صحت کو۔  مارشل لائی دور کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔  ساری قوم آگ و خون میں تماشا بنی ہوئی ہے۔

اس جنگ نے ہمارے فن و ادب کا بھی بہت بڑا نقصان کیا۔ جو فنون جو ہمارے تنے ہوئے اعصاب کو نارمل کرتے ہیں اور وہ آداب جو ہمارے معاشروں میں احساس فکر پیدا کرتے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ ختم ہو گئے اور ان کی جگہ شعلہ بیان مولویوں نے لے لی۔  ہمارے معاشرے کی حالت اس حد تک گر چکی ہے کہ ایک اچھا مسلمان اور انسان بنے کی بجائے سارا زور  داڑھی رکھنے، پگڑی باندھنے اور دوسرے مسلمانوں کو کافر کہنے پر لگایا جاتا ہے۔

ان سارے محرکات کو دیکھا جائے تو اس کے ملکی کی معاشی حالات پر بھی ان سارے خدوخال کا اثر ہوا ملک میں کوئی بھی  میگا پروجیکٹ نہ تعمیرہو سکا اور ملک کے اندر پڑھے لکھے لوگوں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے جس کا نتیجہ لاقانونیت اور شہریوں کے عدم تحفظ کی شکل میں ہے جو ہمارے معاشرے میں رچ بس گیا ہے۔

 

  



160