مرد قلندر

Posted on at



شاعر مشرق ، حکیم الامت، مرد مومن، مرد قلندر


علام محمد اقبال ایک شاعر کا دل اور ایک پیغامبر کا دماغ لے کر پیدا ہوئے۔  ایک اعلیٰ طباع اور ذہین، لائق تحسین، ایسا چراغ جس کی روشنی سے ملت اسلامیہ جگمگا اُٹھی۔


آپؒ کی شاعری نے اردو ادب کو مزید دوام بخشا ہے اور ہر فقرا اور ہر لفظ ، کوئی کنایہ اور کوئی استعارہ فکر، نصیحت  اور پیغام سے   بھرپور ہے۔ یہ پیغام اور عمل دریا کی روانی میں ، پہاڑ کی بلندی میں، صحرا کے بگولوں میں، میخانے کے خم میں، ساقی کے ساغر میں، شاہین کی پرواز میں، ہوا میں، جگنو میں، شبنم میں نظر آتا ہے۔


آپؒ فقط فلسفی شاعر نہ تھے بلکہ مسلمانوں کے لئے عظمت کا مینار بھی تھے۔ اُپؒ نے اپنی شاعری کے زریعے مسلمانوں کو اپنی مذہبی، ادبی  اور سیاسی زندگی سنوارنے کے لئے روشنی دکھائی۔ اور  اسی روشنی میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک الگ مملکت حاصل کی۔



اقبال نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو قوم کی فلاح وبہبود کے لئے وقف کر دیا اور اپنے سیاسی افکار اور جذبات کو شاعری کے سانچے میں ڈھال دیا۔


آپؒ کی پرجوش اور ولولہ انگیز نظموں نے غلام و محکوم قوم پر وہ اثر کیا جو بڑے بڑے خطبات اور فصیح و بلیغ تقاریر بھی نہ کر سکی۔  آپؒ کے تصورات ایسے ہیں جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اب بھی لکھا جا رہا ہے۔


اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اقبالؒ کا کلام اسلامی تصورات کی تفسیر ہے۔  آپ نے اپنی شاعری میں خودی کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا ذکر کتاب الہیٰ میں ہے جو خود شناسی اور عرفان نفس کی وضاحت ہے۔


یہ موج نفس کیا  ہے ؟ تلوار  ہے


خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے


خدا کی ذات کی صفات انسان کی نس نس میں رچی بسی ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اقبال فرماتے ہیں۔


قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت


یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان


اقبالؒ کی شاعری میں تصور خودی کے بعد دوسرا اہم تصور تصورعشق ہے جس کی وجہ سے دوسرے شاعروں میں اقبالؒ اپنا ایک منفرد اور عظیم مقام رکھتے ہیں۔ آپؒ کے کلام ہی کی بدولت لفظ عشق جو ایک فرسودہ لفظ تھا کو ایک احترام ملا اور یہ لفظ ملت کی بقا اور زندگی کا ذریعہ بن گیا۔  آپ کے نزدیک عشق  تمام تخلیقات کی حرکی قوت ہے۔  عشق زندگی کی کیفیات میں انقلاب برپا کر دیتا ہے اور ایسا جذبہ ہے جو مقصد اعلی کے حاصل کرنے کا احساس اور سچی لگن پیدا کرتا ہے۔


یہ وہی جذبہ ہے جس نے حضرت ابراھیم ؑ کو بے دھڑک آگ میں چھلانگ لگانے پر مجبور کیا اور جس نے حضرت امام حسین رضی اللہ راہ حق پر سر دینے کا حوصلہ دیا۔


صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق


معرکہ  و جود   میں  بدر  و حنین   بھی   ہے   عشق



اسی عظیم اور نیک جذبہ کی بدولت انسان پہاڑوں سے ٹکراتا ہے اور ہواؤں سے نبرآزما ہوتا ہے۔ سمندروں کو عبور کرتا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہے اور کائنات کو تسخیر کرنے پر اکساتا ہے اور آسمان اور زمیں کی وسعتوں کا چھو لیتا ہے۔


عشق  کی  اک جست  نے طے کر قصہ  تمام


اس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھا میں



160