عینک بھی ہماری،مرضی بھی ہماری

Posted on at


خدا کسی قوم یا انسانی گروہ پروہ وقت نہ لائے جب وہ کھوٹے کھرے کی تمیز جھوٹ اور حرام حلال کا امتیاز چھوڑ دے ۔ہماری قوم پر خاص طور پر اہل الرائے دانشور اور پڑھے لکھے طبقے پر یہ وقت آچکا ہے جن کے لیے بلیک ہے یا وائٹ، درمیانی بھورا علاقہ اپنا وجود ہی کھو چکاہے حالانکہ دنیامیں سب سے زیادہ یہ بھورا علاقہ یعنی عام دنیا ہی ہوتی ہے جو سارا کام چلاتی ہے ۔ہمارے ہاں ہیرو بستے ہیں یا ولن ،عام خطا کے پتلے انسان تو رہے نہیں ۔



مزے کی بات یہ ہے کہ جو ہیرو ہیں وہ خود اپنی زبانی اپنے ہیرو ہونے کا اشتہار گلی گلی لگاتے پھر رہے ہیں سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس عینک کس رنگ کی ہے۔کیونکہ صاف شفاف سفید بے رنگ عینک تو اس معاشرے میں کوئی رہی نہیں جس کو جو شخص پسند ہے وہ اسے مہاتما بدھ،قائد اعظم ،داتا گنج بخش بنا کر پیش کرتا ہے جسے جو شخص پسند نہیں وہ اسے ہٹلر مسولینی،میلا سووچ کے روپ میں دیکھتا ہے ۔



کوئی دانشور یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اچھے سے اچھے آدمی میں بھی کوئی برائی ہو سکتی ہے یا برے سے برے آدمی میں بھی کوئی اچھا ئی نظر آسکتی ہے ۔اکثر ایسے سیاستدان یہی طرز عمل اپنا تے ہیں منہ بھر بھر کے کسی سابقہ حکومت کو فضیحتیں سنا رہے ہوں گے۔ویل اینڈ گڈ ۔جب ان سے پوچھا جا تا ہے کہ حضور آپ بھی تو ان کے ساتھ تھے،اس وقت کوئی خرابی نظر نہیں آئی تھی ۔اس سچ کا ظاہر ہے کیا جواب ہو سکتا ہے مگر پاکستا ن میں ہر بات کو جواب سیاستدانوں کے پاس ہو تا ہے اور عوامی زبان میں جواب یہ ہوتا ہے کہ بھائی ہمار ی مرضی ہم جب جہاں جس رنگ کی عینک پہننا چاہیں پہن لیں گے ۔عینک ہماری،مرضی ہماری ،آنکھیں ہماری ،جب ہمارا جی چاہے گا ہم خود فوجی حکمرانوں کو دعوت دے کر مٹھائیاں بانٹ لیں گے تب کوئی اور عینک لگی ہو گی ۔



مسئلہ سارا عینکوں کا ہے ۔یہی سب سے بڑا المیہ اور مسئلہ ہے باقی رہ گئے اصول ،نظریات،جمہوریت،آزادی،قانون،انصاف،یہ سب موم کی ناک ہیں ۔جدھر مرضی ہے پھیر دیں جو مرضی ہے معنی نکال لیں ۔مرضی بھی اپنی معنی بھی اپنے ،پوچھو تو سب سے دلیل یہ ہے کہ اب ہم بدل گئے ہیں ۔اب ہم نے سابقہ کارتوتوں اور نظریات سے توبہ کر لی ہے ۔یعنی صاف کہو عینک بدل ڈالی ہے آپ کے عینک بدلنے کا معاملہ تو ٹھیک ہے میرے بھائی۔مگر آپ دوسروں کی عینک اورر ان کے نمبر تبدیل کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں اور اگر نمبر نہیں بدلتا تو آپ دوسروں کو غدار ،غیر محب وطن اور دوسرے برے برے ناموں سے کیوں پکارتے ہیں ۔


آپ کو آپ کی عینک مجھے میری عینک مبارک،پرانے زمانے میں زبردستی یہ عینکیں بزور شمشیر تبدیل کرائی جاتی تھیں ۔یعنی آپ تلوار لے کے آگئے کہ اپنا مذہب تبدیل کر دو ورنہ تہہ تیغ ہو جائے جاؤ۔اپنی زمین جائیداد مال و متاع بلکہ بیوی تک ہمیں دے دو ۔علاؤ الدین خلجی نے باقائدہ ایسا ہی کیا تھا اور عینک نہ بدلنے والے راجپوت کا سارا ٹبر اور قلعہ چتوڑ جلاکر راکھ کا ڈھیر بنا دیاتھا ۔آج کل یہ کام تلوار کی جگہ ووٹوں کی گنتی سے ہوتا ہے اگر آپ انتخاب جیت گئے تو آپ نے ایک اور طرح کی عینک پہن لی اگر ہار گئے تو دوسری طرح کی عینک بھی سرھانے تیار ہے۔



ہارے ہوئے آدمی کو اپنی عینک کے سوائے دھاندلی کے اور کچھ نظر نہیں آتا ۔پھر شور ہنگامہ ،توڑ پھوڑ ،گھیراؤ جلاؤ،نعرے بازی،دھرنے ،ہڑتالیں ،تالہ بندیا ں ،پہیہ جام،یہ جام وہ جام،جیتا ہوا آدمی ولن ہارا ہوا آدمی ہیرو دکھائی دیتا رہا۔یہ کا م اس وقت تک جاری رہتاہے جب تک خاص قسم کی عینکیں لگی رہتی ہیں مزے کی بات ہے پاکستان میں لوگوں کو اپنی کہی ہوئی باتیں اور بیانات بھی یاد نہیں رہتے۔یاد دلاؤ تو کہیں گے یہ اُس وقت کی بات تھی اب حالات بدل گئے۔



About the author

shaheenkhan

my name is shaheen.i am student . I am also interested in sports.I feel very good being a part of filmannex.

Subscribe 0
160