انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں بسنت ڈے

Posted on at


انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں آج اور گزشتہ روز بھی کافی ہلہ گلہ رہا اور اس کی وجہ بسنت ڈے ہے. یہ ایک ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب ہر سال کی طرح اس سال بھی کلچرل ویک منایا جا رہا ہے. ہماری یونیورسٹی میں کم و بیش ٣٠ ممالک کے طالب علم پڑھتے ہیں اور یہ ایک ہفتہ ان ہی لوگوں کے لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنی ثقافت کو اجاگر کر سکیں.



تو ہم بات کر رہے تھے بسنت ڈے کی. گزشتہ روز میں یونیورسٹی نہیں جا سکا لیکن آج جب میں گیا تو مجھے اس بارے میں پتا چلا کہ بسنت ڈے ہے. پتنگ بازی کا سارا سامان یونیورسٹی کے فٹبال گراؤنڈ میں ہی ایک سٹال پر موجود تھا تو ہم نے باہر سے خریداری کرنا مناسب نہیں سمجھا اور بادل ناخواستہ ہم دوستوں نے ادھر سے ہی ٣ پتنگیں اور ڈور انتہائی مہنگے داموں خرید لیں. ڈور کی ناپیداری کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہماری پتنگ اوپر جاتے ساتھ ہی ایک منٹ میں کٹ گئی.



دوسری پتنگ نے بھی ہم سے دور  جدا ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگائی جب ڈور خود بخود ٹوٹ گئی. تیسری پتنگ سے ہم نے ٣ پتنگوں کی چھٹی کرائی اور آخر کار وہ بھی کٹ گئی. اس کے بعد ہم نے ٧ اور پتنگیں خریدیں لیکن کوئی بھی پینچا کامیاب نہ رہا اور یکے بعد دیگرے سب کٹ گئیں. اس کی ایک وجہ تو اچھی ڈور کا نہ ہونا اور دوسرا پتنگ بازی کا کچھ خاص تجربہ نہ ہونا.



یہ ہماری یونیورسٹی کے بیچارے طلباء کے لئے ایک اچھی تفریح ثابت ہوئی کیوںکہ اسلام آباد اور اس سے ملحقہ شہر راولپنڈی میں پتنگ بازی پرسخت پابندی ہے. لوگوں نے اسے کافی زیادہ انجواۓ کیا. میرا نہیں خیال کہ یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے باضابطہ طور پر منظور شدہ بسنت ڈے تھا لیکن ہمیں کسی نے روکا بھی نہیں. کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس نے یونیورسٹی انتظامیہ کو اسے روکنے کو کہا لیکن انتظامیہ کے اس اصرار پر کہ اس سے کسی کو نقصان نہیں ہو گا اور اس کو پرامن رکھا جائے گا تو ہمیں اس کی اجازت مل گئی.



بہرحال جو بھی تھا جیسا بھی تھا سب کو یہ بہت اچھا لگا اور توقع ہے کہ اگلے سال بھی یہ دن منایا جائے گا. ویسے یہ ایک بہت خطرناک مشغلہ ہے جس میں کافی زیادہ قیمتی جانوں کا ضیا ہو چکاہے اور اس ہی وجہ سے گزشتہ ٧ سال سے جب سے پاکستان مسلم لیگ ن کی پنجاب میں حکومت ای ہے تب سے اس جان لیوا کھیل پر پابندی عائد ہے. اور میرے خیال میں یہ ٹھیک بھی ہے کیوںکہ اس سے پورے شہر کی جان خطرے میں ہوتی ہے خاص طور پر وہ سائیکل اور موٹر سائیکل سوار جو زیادہ تر بغیر ہیلمٹ کے سفر کرتے ہیں وہ گلے پر ڈور پھرنے سے موقع پر جاں بحق ہوتے ہیں.



پھر بھی اگر اس کھیل کا کوئی سیف سولیوشن ملے جس میں لوگوں کی جان و مال کا خطرہ نہ ہو تو دہشتگردی کے خوف سے سیر و تفریح سے محروم لوگوں کو اس کی اجازت دے دینی چاہیے. کیونکہ یہ ان کے لئے ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے سے یقینا کم نہیں ہو گا. آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ مجھے اس بارے میں لازماً آگاہ کیجیے گا.




About the author

jawad-annex

heeyyyy em jawad ali.... ummm doing software engineering.... muh interest in playing games, blogging, seo, webdeveloping and blaa blaaa blaaaaa :p

Subscribe 0
160