شاہین

Posted on at


نہیں تیرا نشیمن کسر سلطانی کے گھمبد پر

تو شاہین ہے بسیرا کر  پہاڑوں کی چٹانوں پر

-شاہین عقاب کو کہتے ہیں شاہین اس پرندے کا نام ہے جس کی پرواز تمام پرندوں سے بلند ترین ہے اس لئے شاہین کو بلند پرواز بی کہا جاتا ہے شاہین ایک تیز نگاہ پرندہ ہے اس کی نگاہ میں اس قدر تیز ہوتی ہے کےوہ آسمان کی بلندیوں سے اپنا شکار کھوج لیتا ہے اور شاہین گوشت خور پرندہ ہے اور یہ بری تیزی سے اپنے شکار پر چپتاتا  ہے اور اس کو اپنے پنجوں میں دبا لیتا ہے اور پھر اس تیزی سے کھاتا ہے کے دوبارہ اپنی پرواز جاری کرتا ہے

شاہین یعنی عقاب کو علامہ اقبال جیسے مشورشہر نے اپنی شاعری میں استمعال کیا ہے علامہ اقبال نے شاہین کو اپنی شاعری میں استمعال کرنے کا مقصد نوجوانوں کو شاہین جیسی جرات اور قوت پیدا کرنے کا پیغام دینا ہے اور خاص طور پر علامہ اقبال نے نوجوان کو شاہین سے تشبیہ دی ہے کیونکہ یہ ایک چست و توانا پرندہ ہے ان کا خیال ہے کے ایک نوجوان کی زندگی ایک شاہین پرندے کی مانند ہونی چاہے اور اس کی اصل کامیابی کا راز ہی یہ ہے جیسے ان کی نظم کے اشعار

تیرے صوفےہیں افرنگی

تیرے قالین ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے 

جوانوں کی یہ تن آسمانی 

اس نظم میں بھی علامہ اقبال نے نوجوانوں کو سستی سے بچنے کا پیغام دیا ہے 

شاہین دوسرے پرندوں کی طرح درختوں پر بسیرا نی کرتا اور دوسرے پرندوں کی طرح سارا دن ادھر ادھر درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھ کر نہیں گزارتا بلکہ یہ اپنی اونچی پرواز جاری رکھتا ہے جبکہ دوسرے پرندے گھونسلوں میں اپنا گھر بنا کر رهتے ہیں 

شاہین ایک سخت زندگی گزرنے کا عادی ہوتا ہے اس کا پہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کرنا اور بلند پرواز اڑنا اس بات کی علامت ہے ک شاہین کی زندگی تمام پرندوں سے زیادہ سخت ہوتی ہے اور یہ ایک طاقتور اور مظبوط پرندہ ہے جو کبھی مشکل میں بھی ہمت نہیں ہارتا 

شاہین تیز نگاہ بلند پرواز ہونے ک ساتھ ساتھ ایک خوددار پرندہ ہے یہ مرا ہوا جانور یا کسی اور کا شکار کیا ہوا جانور نہیں کھاتا اور یہ عام کیرے مکوڑے نہیں کھاتا 

شاہین کی ان خوبیوں کی وجہ سے یہ میرا پسندیدہ پرندہ ہے اور ہر نوجوان کو شاہین کی خوبیوں سے ضرور متاثر ہونا چاہے 

 



About the author

160