ہزارہ صوبہ کا نعرہ موجب امتیازات، حکمرانوں کی دسویں نسل( حصہ اول)

Posted on at


ہزارہ صوبہ کا نعرہ موجب امتیازات، حکمرانوں کی دسویں نسل حصہ اول



پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسلہ ہمارے مرکزی شہروں کی  اشرافیہ کا ملک کے معاملات کو غیر سنجیدگی سے لینا ہے۔ شاہد انہیں پاکستانی عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پاکستانی عوام انہی وجوہات کی بنا پر گونا گو مسائل کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ ہم ایک اس کی زندہ مثال ہزارہ ڈویژن کی لیتے ہیں۔  اس کی ایک سٹرک جو شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم ہے ، جو ایوب خان کے زمانے 1959 سے 1979 تک کے عرصے میں پاکستان ، چائنہ کی سرحد خنجراب تک بنائی گئی ، اس سٹرک کے بنانے  کا مقصد تو پاک چائنا تعلقات اور پاک چائنہ تجارت کو فروغ دیناتھا۔



اس سڑک کی لمبائی حسن ابدال سے  کاشغر تک 1300 کلومیڑ تک ہے اور اس کی چوڑائی پاکستانی حدود میں 30 فٹ تک ہے۔ اس سڑک کو باقائدہ طور پر 1979 کو سرکاری طور پر کھول دیا گیا۔


شاہراہ ریشم وہ واحد سڑک ہے جو جاری کس سے بھاشا تک ہزارہ ڈویژن سے گزرتی ہے  جو ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، بشام، پٹن، داسو، اشتعیال، بھاشا اور آگے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر، پھر گلگت ، ہنزہ اور سست ڈائی پورٹ ، خنجاب سرحد سے چائنہ میں داخل ہوتی ہے۔  یہ روڑ ہزارہ ڈیژن کا واحد  ذرائع آمدورفت کا سبب اسباب اور وسیلہ ہے۔ یہ سب چائنہ کی مہربانی ہے جب بھی کوئی لینڈ سلاڈنگ یا کوئی اور قدرتی آفت سے یہ روڑ بلاک ہوتا ہے ، فورا کھول دیا جاتا ہے۔  اگر یہ روڑ ہمارے پشاوری ، لاھوری یا اسلام آبادی اشرافیہ کے پاس ہوتا تو یقینی طور پر ہماری حالت تھر کے ریگستان میں بسنے والے سے کم نہ ہوتی اور ہمارے بچوں کی اموات حکومتی سطح پر منعقد گانے بجانے کے ماحول میں سفاکانہ طریقے سے ہوتیں۔  ان کی ظلمت کسی فرعونیت سے کم نہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے اندر مزید صوبے نہیں چاہتے ، یہ لوگ وسائل کی تقسیم نہیں چاہتے۔ یہ عام پاکستانی شہری تک سہولیات نہیں چاہتے۔



تنگ روڑکی وجہ سے بے ہنگم ٹریفک کو کنٹرول کے لئے تعینات ٹریفک پولیس کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہے اور عوام کو ٹریفک ضابطوں میں رکھنے کے لئے  خوب لوٹ گھسوٹ کا دندا چمکائے ہوئے ہیں ۔ تنگ خستہ ، ناگفتہ با روڑ ہزارہ ڈویژن کی عوام کی بہت بڑی بدقسمتی ہے اور اٹک پار ہماری اشرافیہ اس کھیل تماشے سے خوب لطف اندوز ہو رہی ہے۔  



160