دریائے سندھ کی عظمت

Posted on at


دریائے سندھ کی عظمت



دریائے سندھ کی عظیم تر اہمیت ، اس دریا کے ارد گرد آباد تہذبوں سے آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔  ماہرین آثار قدیمہ کے نزدیک ان تہذیبوں کی تاریخ لگ بگ 3300 قبل مسیح سے شروع یوتی ہے۔ ماہر آثار قدیمہ کے نزدیک ان تہذیبوں کی تعداد 900 کے قریب ہے لیکن ابھی تک جن تہذیبوں کے آثار ملے ہیں وہ  96 ہے جن میں ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذبیں قابل ذکر ہیں۔ یہ دریا اپنے بہاؤ کے لحاظ سے دنیا کا اکیسواں بڑا دریا ہے۔  جس کی لمبائی 2900 کلومیڑ بنتی ہے۔ دریائے سندھ کا ممبہ تبت کے گلیشئر ہیں جو چائنہ کا علاقہ ہے  ، تبت سے نکل کرمقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ سے گزرتا ہوا پاکستانی علاقہ گلکت بلتستان کے ضلع سکردو میں داخل ہوتا ہے اور آگے جا کر ضلع گلگت کی تحصیل جگلوٹ میں اپنے معاون دریا گلگت ہنزہ دریا میں شامل ہو کر ہزارہ ڈویژن کے ضلع کوہستان سے گزرتا ہوا اور ان علاقوں کے ندی نالوں کو اپنے بڑے پانی کے اندر ضم کر کے تربیلہ جھیل میں شامل ہوتا ہے۔  



تربیلہ جیھل سے اگے اٹک پل سے دریائے قابل کو اپنے ساتھ ملا کر پنجاب میں داخل ہو جاتا ہے۔


انگریزوں نے اس دریا کے نام سے انڈیا کا نام منسوب کیا۔  یعنی انڈس سے انڈیا۔  سکندر اعظم کے دور میں اس دریا کے ارد گرد وسیع جنگلات اور نایاب جنگلی جانوروں کا ذکر ملتا ہے۔ اس دریا کا نام پرانی ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں ملتا ہے۔




دریائے سندھ کے معاون دریاؤں میں چناب، جہلم، راوی ، ستلج ہیں جو صوبہ پنجاب میں اس کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔  جب پاکستان کا بھارت کے ساتھ پانی کا تنازع کھڑا ہو گیا تو ایک بین الاقوامی معاہدہ دنوں ملکوں کے درمیان طے پایا جسے انڈس واٹر ٹریٹی کا نام دیا گیا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں سال سے بہنے والے دریا کا پانی تقسیم کر دیا گیا اور دریائے سندھ کے رعب ، دبدبہ ، عظمت و قوت کو لاغر کر دیا۔



 اس کا اندازہ اس ڈیلٹا سے لگایا جا سکتاہے جو کراچی کے نزدیک کوٹری بیراج سے آگے ہیں۔  یہاں پر اس کا پانی اس طرح ہے جیسے یہ ندی بہہ رہی ہو۔ کسی زمانے میں دریائے سندھ کا ڈیلٹا بہت وسیع تھا ، اور اس کے قریب بڑے پیمانے پر ایک درخت جس کا نام مینگروو ہے کے جنگلات تھے جو دریائے سندھ میں پانی کی کمی سے اپنا احاطہ بھی کم کر گئے ہیں۔



 



اسی ڈیلٹا میں ڈولفن مچھلی پائی جاتی ہے جو آنکھوں سے اندھی ہے اس طرح بہت سے نایاب پرندوں کی آماجگا ہ ہے جو سردیوں میں ٹھنڈے علاقوں سے ہجرت  کرکے یہاں آتے ہیں۔



160