جان جی ۲

Posted on at


جان جی مخلس،مجلس اور محبتی آدمی تھے۔بحث میں کتنی ہی گرما کرمی ہو جاےٴ دل میں درا میل نہیں رکھتے تھے مزاق میں دوستوں کو چھیڑتے اور انھیں طیش دلانے میں انھیں بڑا مزا آتا تھا۔انکو شاعری سے نفرت تھی مگر اس کے باوجود وہ یہ اکثر شعر پڑھا کرتے۔

      ،انسان کو انسان سے کینہ نہیں اچھا

      جس سینہ میں کینہ ہو وہ سینہ نہیں اچھا۔

 

ان کے خیال میں مسلمان سے کینہ رکھنا اس پر ظلم کے مترادف ہے۔

اتوار  کو سارا دن پلنگ پر نیم دراز ہو کر قباہلی تنازعوں اور کوہاٹ کی زمینوں کو فیصلے کرتے۔رات کو فرش پر سوتے کہ اس سے تکبر اور کمر کا درد دور ہوتا ہے۔مشاعرہ کم ہی سنتے تھے۔اگر مشاعرہ کے دوران کو شعر پسند آجاتا تو وہی کہہ کر قرط سرور سے آنکھ  بند کر لیتے۔ اور جھومنے لگتے۔شاعر وہ شعر مکر پڑھنے لگتا۔تو اس ہاتھ کے اشارے سے روک لیتے ۔کہ اس سے ان کے لطف میں خلل واقع ہوتا ہے۔

 

محبت اور نفرت دونوں  کا اظہار ویٹ لفٹنگ سے کرتے تھے۔مطلب یہ کہ بحث میں ہار جاہیں تو حرف کو اَٹھا کر اس کی پیشانی اپنے لب لیول تک لاتے اور چوم کرع ہیں ہوا آزادانہ گرنے کے لیے چھوڑ دیتے۔

سچ بات کرنے میں بہت بے بس تھے۔منہ میں جو بات آتی وہ کر دیتے۔ اگر ان کی بات پر دوسرا آزادہ یا مشتعل ہو جاتا تو انھیں پورا اطعمینان ہو جاتا تھا کہ سچ بولا ہے۔

دوست سے رخصت ہوتے وقت بیٹی قیزہ کو اسکی سالگرہ کا تحفہ ۵۰۰ روپے دیے۔

 

جب دوست سے رخصت ہونے کے بعد پشاور پہنچے تو انھوں نے دوست کو خط لکھا اور اس میں اپنی بیماری کا تزکرہ بھی کیا۔مگر انھوں نے اپنے دعست کو پتہ بھی نہ چلنے دیا۔اج کل کے دور میں جان جی کا کردار ہمارے لیے بہت حثیت رکھتا ہے۔



About the author

160