(قرآن کا نظریہ عدل اور اسلامی دنیا (حصہ اول

Posted on at


نظریہ عدل قرآن کا بنیادی نکتہ ہے۔ قبل از اسلام عرب معاشرے میں سینہ بہ سینہ منتقل رسوم و روایات رائج تھے۔ عدل و انصاف کے قیام کے ضمن میں عرب قبائلی معاشرے کے اپنے طور طریقے تھے، جن کے اطلاق سے عموماً کوئی مسائل پیدا نہیں ہوتے تھے۔ مکہّ کے معاشرے میں بھی جب تک ذاتی جائیداد کا تصور عام نہیں ہوا تھا تو قبائلی رسوم و رواج کی مدد سے تصفیہ طلب امور بخوبی طے کر لیے جاتے تھے۔ لیکن ما قبل اسلام مکیّ قبائلی معاشرہ منجمند نہیں تھا، اس میں تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں، لہذا سینہ بہ سینہ منتقل ہو کے آنے والے رسوم و روایات پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے ناکافی ثابت ہو رہے تھے۔


 


مکہ ایک بین الاقوامی تجارتی و مالیاتی مرکز میں تبدیل ہو چکا تھا جس سے قبائلی بندھن اور قبائلی رسوم، رواج و روایات کمزور پڑ رہے تھے۔ تجارت اور سرمایہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ذاتی جائیداد کا تصور پھل پھول رہا تھا اور معاشرے میں نئی نوعیت کے بے شمار مسائل جنم لے رہے تھے، جن میں عدم انصاف کا مسئلہ سب سے شدید نوعیت کا تھا۔دولت کے ارتکاز کے ساتھ ساتھ غربت و افلاس میں میں بالکل اسی طرح اضافہ ہو رہا تھا، جیسے آج کل کے جدید معاشرے میں بھوک اور فاقے کے واقعات عام تھے، سارے قبائلی رواج و اصول بکھر رہے تھے۔ معاشرے کے کمزور طبقوں کے لیے انصاف کا حصول ناممکن ہو گیا تھا۔ کسی حکومت یا کسی حکمران کا وجود نہیں تھا کہ جس سے انصاف طلب کیا جا سکتا۔ کوئی عدالتیں موجود نہیں تھیں، نہ ایسے کسی اداراہ ہی کا وجود تھا کہ جو تکالیف و شکایات کا ازالہ کر سکے۔


 


جب ناانصافہ، ظلم، استحلال اور تشدد کے واقعات عام ہو گئے تو بنو ہاشم، بنو زہرہ اور بنو تیم نے حلف الفضول کی بنیاد پر ظلم و ناانصافی کے ازالے کے لیے ایک اتحاد تشکیل دیا۔ حضور نبی کریمؐ اس وقت نو عمر تھے  اور جب پیغمبری کے مرتبہ پر فائض ہوئے تو وہ اس اتحاد کا ستائشی انداز میں تذکرہ کیا کرتے تھے۔ مشہور مؤرخ سر ولیم موئیر کے الفاظ میں ‘‘ اس اتحاد نے حضور نبی کریمؐ کے دل میں وہ جوش و جذبہ پیدا کیا جو قبائلی جنگیں بھی نہیں پیدا کر سکی تھیں۔


 


حضورؐ اوائل عمری سے ہی انصاف و عدل کے بارے میں بہت متفکر رہا کرتے تھے۔ وہ مکہ کے سماجی و معاشی حالات کا بغور مشاہدہ کرتے رہتے تھے اور ان سے شدید طور پر پریشان رہا کرتے تھے۔  وہ مکہ کے مذہبی خیالات حالات کی وجہ سے بھی افسردہ رہا کرتے تھے۔ ان کو ہر طرف توہمات نظر آتے تھے اور دور دور بھی کہیں روحانیت نظر نہیں آتی تھی۔ قبائلی سرداروں اور جاہ و جشم رکھنے والوں کے آگے کوئی دم مار نہیں سکتا تھا۔ یہ اتفاقیہ امر نہیں کہ قرآن کی کئی مکی سورتوں میں دولت کے ارتکاز اور غریبوں اور ضرورت مندوں سے عدم توجہی کی بھرپور مذمت کی گئی۔


 


 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160