اسلامی بینک کاری

Posted on at


 

عصر حاضر میں جب کہ بینک کاری کی ترقیات کا سورج نصف النہار پر پہنچ رہا ہے اسکی عظیم افادیت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا آج کتنے ممالک ہیں جو مال وازر کے بے پناہ ذخائر ، یا عظیم الشان بینکوں کے سہارے اکتشافات و ایجادات میں کمال پیدا کر کے سپر پاور بن چکے ہیں اور دنیا کے امیر ترین ممالک میں ان کا شمار ہوتا ہے اگر ان کی چلمن میں جھانک کر دیکھا جائے تو وہاں زیادہ تر ہماری ہی دولت بے بہا کی گل گاری نظرآئے گی اور محسوس ہو گا کہ وہ ہمارے ہی ریال ہیں جن کے بل بوتے پر وہ آج دولت کی دنیا میں سب سے اونچے نظر آرہے ہیں

اگر ہم عقل و دانش کے تقاضوں پر کاربند ہو کر اپنی دولتوں کے اپنے قبضے میں کر لین تو اس سے ہمارا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشیات کی دنیا میں ہمارا بھی ایک وقار اور مقام ہو گا اور اسکے زریعے مذہب وملت کے فروغ کا استحکام کے قابل قدر کارنامے انجام دیئے جا سکیں گے (انشاءاللہ تعالی) اور دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ سودی معاملات کی آلودگی سے ہمارا دامن داغ دار نہ ہوگا

آج قدم قدم پر بینکوں کی سوسائٹی میں جو ہمیں سود جیسے گناہ کا بادل ناخواستہ سامنا کرنا پڑتا ہے اسکی بری وجہ یہ ہے کہ بینکنگ نظام ہمارے ہاتھوں میں نہیں  اس لیے سخت ضرورت ہے کہ اہل اسلاماس طرف بھی توجہ دیں اور ایسے مالیاتی ادارے قائم کریں جن کی بنیادیں (اسلامی اصولوں ) پر استوار ہوں اوروہ سود اسکے مثل دوسرے ناجائز عقود سے مکمل پاک ہوں اسلام نے ایسے بہت سے عقود کی اجازت دی ہے کہ ان پر عمل پیرا ہو کر کامیابی کے ساتھ اسلامی بینک چلائے جاسکتے ہیں

۱۔ شرکت۔ بینک کسی کے ساتھ یون کاروبار کرے کہ دونوں تضارت میں برابر یا کم وبیش روپے لگائیں اور جو نفع ہو اپنے مال کے تناسب سے کسی مقررہ شرح کے مطابق تقسیم کرلیں اور اگر خدانخواستہ کبھی تجارت میں نقصان ہوا تو دونوں فریق میں بھیا سی مقررہ شرح کے حساب سے شریک ہونگے

۲۔ مضاربت۔ یعنی سیک طرف سے مال اور دوسری طرف سے کام ، بینک قابل اعتماد ، امانت دار تاجروں کو روپے اس معاہدے کے ساتھ دے کہ تم تجارت کرو جو نفع ہوگا اسمیں اتنے فیصد تمہارا ہو گا اتنے فیصد میرا شرکت کی طرح یہان بھی نفع کا فیصد کم وبیش ہو سکتا ہے

۳۔ بیع عینہ۔ دین سے خاطر خواہ نفع کے حصول کا جائز معاملہ، اس بیع کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کسی سےقرض لینا چاہتا ہے اور وہ اسی قرض دے کر یہ کہے کہ تم یہ سامان مجھ سے ادھار خرید لو پھر اسے بازار میں بیچ کر اپنا کام چلاو وہ راضی ہو تو اتنے دام مین اس کا سامان بیچ دے جتنے سے اسکا کام چل سکے



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160