نیا والڈ آرڈر اور ہمارے دفاعی تقاضے

Posted on at


نیا والڈ آرڈر اور ہمارے دفاعی تقاضے



نائن الیون کے بعد سے اب تک ہمارا ملک کا امن و امان ، فرقہ واریت، خانہ جنگی اور دہشت گردی کی نظر ہو چکا ہے اس ملک کی یہ حالت بن چکی ہے جیسے یہ ملک دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اتحادی ممالک کے ساتھ برابر کا شریک نہیں بلکہ زر خرید ملک ہے۔ یہ سب اپنی جگہ اگر دنیا کے موجودہ حالات کا باغور مطالعہ کیا جائے جیسے ملک شام میں خانہ جنگی کی بنا پر امریکہ نے اس پر حملہ کرنے کے لئے پر تول لئے تھے لیکن عین وقت پر روس کی مداخلت نے امریکی عزائم خاک میں ملا دئیے جو اس بات کا عدیہ دین رہی ہیں روس ایک بار پھر سپر طاقت بنے جا رہا ہے پرانا ورلڈ آرڈر ٹوٹتا اور نیا ورلڈ آرڈر بنتا نظر آ رہا ہے۔  روس کا تازہ ترین دوسرا اثر و رسوخ یوکرئن کے علاقے کریمیا پر قبضہ کر کے اپنے علاقوں میں شامل کرنا ہے۔ کریما وہ علاقہ ہے جہاں سے روسی گیس پائپ لائن چین کے لئے گزرتی ہے۔ اسی طرح چیچنیا کو سالہاسال کی جدوجہد آزادی کے باوجود آزادی نہیں دی۔



روسی عزمت کا پھر سے سورج طلوع ہونے کے سہرا صدر پیوٹن کو جاتا ہے جس نے ملکی عمارت کو پھر سے مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر دیا ہے اس چیز کا قوی امکان نظر آتا ہے شاید وہ پھر دوبارہ ان ریاستوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں جو افغان جنگ کی سکشت کے بعد اس سے علیحدہ ہوئی تھیں۔


روس کا شمار دنیا کو تیل و گیس سپلائی کرنے و الے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے اور روسی تیل کی یورپ کو ترسیل بذریعہ پائن لائن ، باراستہ ترکی سے ہوتی ہے ، روس کے تعلقات بھارت سے پہلے ہی سے مضبوط ہیں اور بھارت اس کا اتحادی مانا جاتا ہے جو آئے دن ملکی دفاعی حصار کی دیواروں کو کمزور کرتا رہتا ہے لیکن دوسری طرف نگا ڈالی جائے تو روس افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے جو ہمارے ملک کے دفاع کو مزید خطروں میں گھیرسکتا ہے۔ شام کی وجہ سے ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ ہو چکے ہیں کیونکہ شام میں جاری خانہ جنگی سعودی نواز گروپوں کی بدولت ہو رہی ہے اور پاکستان اس بات پر سعودی عرب کا بڑا ہماتی ہے۔



  ایران اور شام اب روس کے دوست ہیں اور افغانستان میں موجود اعلیٰ حکومتی عہدہدار تو ظاہر شاہ بادشاہ کے زمانے سے ہی بہرتن دوست اور حامی رہ چکے ہیں اور دوسری طرف سے بھارت ، روس کا مضبوط اتحادی بیٹھا موقے کی تلاش میں ہے۔ ہماری ملکی دفاعی اور خارجہ پالیساں موجودہ حالات کے تناظر  کو سامنے رکھ کر مرتب کی جائیں اور پڑوسی ملکوں کی ناراضگی سے بچا جائے اسی طریقے سے ہمارا ملک نئے والڈ آڈرد اور دنیا میں روسی اثر و رسوخ  کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا ہے۔



160