میری زندگی کا نا قابل فراموش واقعہ

Posted on at


میری زندگی کا نا قابل فراموش واقعہ

زندگی عبارت ہے حادثات و واقعات سے۔ دنیا میں روزانہ نت نئے حالات و واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بعض حادثات اس قسم کے ہوتے ہیں جن کے نقوش دل و دماغ پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ اور تا زندگی نہیں مٹتے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ میری زندگی میں پیش آیا یہ ایسا واقعہ ہے کہ جس کو میں بھلانا بھی چاہوں تو نہیں بھلا سکتا۔

انٹر میڈیٹ کے امتحانات ہو رہے تھے۔ جن کے لئے میں نے کوئی تیاری نہ کی تھی۔ چند طلباء نے گمراہ کردیا تھا۔ وہ میرے دوست نما دشمن تھے۔ انہوں نے اپنا تمام وقت کھیل کود اور آوارہ گردی میں گزار دیا تھا۔ وہ کہتے تھے امتحان میں نقل مار کر پاس ہو جائیں گے۔ اس لئے انہوں نے کتابوں کو بلائے طاق رکھ دیا تھا اور سارا دن کھیل کود میں گزرتے تھے۔ میں بھی اپنا وقت برباد کرنے لگا۔ جب ہوش آیا تو پانی سر سے گزر چکا تھا اور امتحا نات سر پر آگئے تھے میں نے بھی نقل کرنے کا پروگرام بنایا۔

امتحانات کے سپر نٹنڈنٹ ایک مقامی کالج کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے پہلے دن ہی تما طلباء سے کہا تھا کہ نقل کرنا اور نا جائز ذرائع اختیار کرنا بد دیانتی ہے اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن ہمارے دلوں پر مہر لگ چکی تھی ہم نے سنی ان سنی کر دی۔

پہلے پرچے میں ہم نے خوب نقل کی۔ دوسرے دن بھی یہی حال رہا۔ ہمارے ساتھ ایک ظالب علم امتحان دے رہا تھا۔ وہ غریب والدین کا بیٹا تھا، جماعت میں اس کی تعلیمی حالت بھی اچھی نہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے والد کے ساتھ محنت مزدوری کرتا تھا۔ اس لئےاسے پڑھنے کا وقت نہ ملتا تھا۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے پہلے دن نقل کی اس پرچہ بہت اچھا ہوا۔

دوسرے دن جب ہم سب امتحانی کمرہ میں بیٹھے پرچہ حل کر رہے تھے یا یوں کہیے کہ نقل کر نے میں مصروف تھے پورے حال میں خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ اچانک وہ غریب لڑکا اٹھا اور سپرنٹنڈنٹ سے مخاطب ہو کر بولا۔ میں نقل کر رہا ہوں یہ کہا اور کتاب نکال کر ڈیسک پر رکھ دی اور کہنے لگا کہ میں نے کل بھی نقل کی تھی، سپر نٹنڈنٹ صاحب اس کے قریب آئے اور پوچھنے لگے تم نے کل نہ بتا یا وہ بولا اس لئے جناب کے کل تک میں شیطان کے زیر اثر تھا۔ لیکن آج میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے۔ نقل کرنا برا کام اور چوری ہے۔

اس کے گھریلو حالات کا ہم سب کو علم تھا۔ جب اس نے کھلے عام اپنے جرم کا اعتراف کیا تو ہم سب پر بجلی گری۔ ہم اپنے دل میں ندامت محسوس کرنے لگے۔ ہمیں اپنے فعل سے نفرت ہو گئی۔ جو کام سپر نٹنڈ نٹ کی نصیحیتیں اور سزا کا خوف بھی نہ کر سکا تھا وہ کام اس لڑکے کے اعتراف جرم نے کردیا۔ ہم سب نقل کر رہے تھے اٹھ گئے اور ایک زبان ہو کر بولے ہم نقل کررہے ہیں یہ کہا اور کتابیں، گائیڈیں اور نوٹس نکال کر میز پر رکھ دیئے۔ سپر نٹنڈ نٹ اور ان کے معاونین نے وہ کتابیں اٹھا کر ایک طرف رکھ دیں اور ہم سب سے مخاطب ہو کر بولے کہ اس لڑکے کی دیانت داری نے آپ لوگوں کو دیانت داری کا سبق دیا ہے۔ امید ہے آپ اسے زندگی بھر فراموش نہیں کریں گے۔ میں آپ کو سزا دے کر گناہ اپنے سر نہیں لینا چا ہتا۔ سزا دینے سے معاف کرنا بہتر ہے۔

اُس دن سے لے کر آج تک میں اس واقعہ کو نہیں بھول سکا اور نہ ہی تا قیامت بھولنا چا ہتا ہوں۔ میں اس لڑکے کا بہت احسان مند ہوں جس نے مجھے ایک غلط رہا پر چلنے سے بچایا۔ یہ واقعہ میری زندگی کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ جس کی وجہ سے میں دیانت داری کو اپنا شعار بنا چکا ہوں۔

 



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160