کچھ حکمت بھری باتیں

Posted on at


کچھ حکمت بھری باتیں


دنیا کی تمام مخلوقات کی زندگی کا وقت گزررہا ہے۔  وقت  جو گرز جائے ماضی اور جو ہو رہا ہو وہ حال اور آنے والے کو مستقبل کا نام دیا جاتا ہے اور اہل دانش کی نظر میں ماضی اور حال نے مل کر ایک پودا لگایا اور اس کا نام مستقبل رکھا۔ ماضی پرانہ سال تھا اور حال جوان و تندرست تھا۔ حال بہت دور اندیش اور سیانا تھا۔ اس نے سوچا کہ ماضی کو مجھ سے ہر وقت گلہ رہتا ہے اور وہ بہت پرشان اور افسردہ ہے کہ کہیں مستقبل بھی جوان ہو کر ہم دونوں کی   کوتاہیوں سے نقصان نہ اٹھائے۔ اس لئے ماضی اور حال نے مل کر مستقبل کو ردخشاں کرنے کے لئے محنت شروع کر دی۔  وہ دونوں مل کر اس ننھے سے پودے کی آبیاری کرتے۔  اسے کھاد ڈالتے اور اس کے لئے زمین نرم کرتے۔ تا کہ جب وہ بھرپور جوان ہو تو ماضی اور حال اس کے سایہ میں پناہ لے سکیں۔ مستقبل توانا اور مضبوط ہو گا تب ہی وہ حوادث زمانہ کا مقابلہ کر سکے گا۔



دن اسی طرح گزرتے گئے ۔ مستقبل نے سر نکالنا شروع کیا وہ زمین کے سینے پر بڑھنے لگا۔ اس کے بڑے بھائی یعنی ماضی اور حال بوڑھے ہو چکے تھے۔ انھیں اس کے سایہ کی ضرورت تھی لیکن جب وہ اس بلند و بالا درخت کی جانب دیکھتے تو کہیں سایہ نہ تھا۔ کہیں پھل نہ تھا۔ کہیں شاخ گل بھی  نہ تھی۔ وہ تو ایک ایسا درخت تھا جس کے پاس دوسروں کو دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔ بلکہ خود بھی اس کی جڑیں بھی کھوکھلی تھیں۔


اس کے دونوں بھائی ایک دن آئے اور مستقبل سے گلہ کرنے لگے کہ ہم نے تمھیں کتنی محبت اور محنت سے پالا پوسا خون جگر سے تمیں سینچا لیکن  لیکن تم نے ہمیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا۔



مستقبل نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا کہ میں بہت شکر گزار ہوں کہ آپ کی محنت نے دھرتی پر میرے وجود کو کھڑا کرنے کے قابل بنایا۔ لیکن آپ نے کبھی محسوس نہ کیا ہو گا کہ صرف کھاد اور وافر مقدار میں پانی ہی میری ضرورت نہ تھی بلکہ نظر نہ آنے والی ہوا اور کافی روشنی کی بھی میرے وجود کو اتنی ہی ضرورت تھی جتنی کہ مٹی کی۔


میں آج زمین پر ایک درخت کی مانند کھڑا ہوں لیکن ایسے کہ میری شاخیں  پھیل نہیں سکتیں۔ بہار میں بھی خزاں رسیدہ ہوں۔ تیز جھکڑ میں میری قوت برداشت جواب دینے لگی ہے اور کسی لمحے بھی زمین بوس ہو سکتا ہوں۔


پھر ایک شام تیز ہوا چلی ۔ ساتھ ہی بارش نے بھی زور دکھایا۔ لمبا درخت کانپا۔ اس نے پوری قوت سے اس تیز ہوا کا مقابلہ کرنا چاہا جو کبھی اس کے لئے زندگی کا پیغام بن سکتی تھی لیکن اس کی تمام تر قوت بے سود ثابت ہوئی اور وہ زمین کی آغوش میں آ سویا۔


یہ مثال ایسی ہے جیسے ایک ذی روح دنیا میں آتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ نشو نما پاتا ہے ، اگر اس نشونما کے ساتھ اس کی بہترین تعلیم و تربیت ہو جائے تو وہ اپنی ذات کی حدود سے بالا تر ہو معاشرے کی فلاح و بہبود کا سوچتا ہے ورنہ اس کی مثال اسی درخت کی مانند ہے جو بن شاخ ہے اور بے سایہ ہے اور پھول اور پھلوں کے بغیر ہے۔ وہ کسی کام کا نہیں۔


 


 



160