امتحان " یادداشت یا ذہانت

Posted on at



امتحان کا نا م سنتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا  چھا جاتا ہے اور ہمیں امتحان کی تباہ کاریاں یاد آنے لگتی ہیں۔اردو لغت کے مطابق امتحان کا مطلب ہے آزمائش یا جانچ۔ واقعی امتحانات کسی آزما ئش سے کم نہیں ہوتے ہیں ۔ جب بھی ڈیٹ شیٹ لگتی ہے تو ہمیں اس کی فکر کھانے لگتی ہے۔ لیکن عادت سے مجبور طلباء پھر بھی صرف فکر پر ہی اکتفاء کرتے ہوۓ اس کے قریب آنے کا انتظار کرتے ہیں اورسبکچھ قسمت کے سپرد کر دیتے ہیں۔



اکثر  طلباء امتحانات سے صرف اتنی مہربانی کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ چاہے جتنے بہی نمبر حاصل کریں مگر کامیاب ہونے والے امیدوارون کی فہرست میں ضرور کھڑے نظر آئیں۔ ان کے علاوہ کچھ سر پھرے نمبروں کی دوڑ کا حصہ بن بن کر اپنی ناتواں جان پر ظلم کرتے دکھائ دیتے ہیں۔ ان چند لوگوں کو لگتا ہے کہ دنیا کی ترقی کا فریضہ ان کے سر ہے۔ ایسا سمجھنا غلط بہی نہیں ہے کیونکہ یہی سچائ ہے۔


آج امتحانات کے بارے میں لکھنے کا بنیادی مقصد ایک اہم مسئلے کو اجاگر کرنا ہے۔  میرے خیال میں ہمارا امتحانی نظام یادداشت پر مبنی ہے۔ اگر آپ بہت کچھ کم وقت میں ذہن نشین کر سکتےہیں تو آپ کی امتیازی نمبروں کے ساتھ  کامیابی کے امکانات کا فی روشن ہیں۔ علاوہ ازیں اگر آپ آنسٹائن کے نقش قدم پر چلنے والے اور ہر چیز پر غور و فکر کرنے والے انسان ہیں تو دل چھوٹا نہ کریں کیونکہ آپ بھی کامیاب ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کے پوچھنے پر آپ کو زرا سی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔  یہاں ایک وضاہت کرنا  ضروری ہے کہ یہ  فکرہ ان افراد کے لیئے نہیں تھا  جن پر زمانہ شرمسار ہے۔ آپ سمجھ گئے ہیں کہ  یہ کن کا زکر تھا  کیونکہ  عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔


میری ماہرین تعلیم سے گزارش ہے کہ خدارا ہماری  یا دداشت کا امتحان نہ لیں بلکہ  ہماری سمجھ بوجھ اور ذہانت کا امتحان لینے پر زیادہ زور دیں۔ 



 



About the author

SalmaAnnex

Haripur, Pakistan

Subscribe 0
160