باڈی لینگویج ، اظہار کا کامیاب طریقہ (حصہ دوم)

Posted on at


 

ٹیکساس یونیورسٹیکے کمیونیکیشن کی پروفیسر بھی ( باڈی لینگویج) کو دور حاضر کا کامیاب نسخہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہے کہ ( آپ سرتوڑ کوشش کے باوجود چند سیکنڈ کے لیے ایسے جامع ، مدلل اور خوبصورت الفاظ جمع نہیں کرسکتے جن کے بولنے سے آپ کو حسب منشاء نتیجہ حاصل نہ ہوسکے جبکہ چند سیکنڈ کا پرجوش مصافحہ آپ کو توقعات سے بڑھ کر نتیجہ دے سکتی ہے وجہ یہ ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی عہدے پر کیوں نہ ہو اپنے مد مقابل سے بھر پور توجہ اور خلوص چاہتا ہے جو آگے بڑھ کر ہاٹھ ملا لینے سے یقینی طور پر ظاہر ہوتا ہے

جب ہم گفتگو کے لیے الفاظ کا سہارا لیتے ہیں تو سننے والے ہمارے تاثرات ، آواز کے اتار چڑھاو ہاتھون کی حرکات ، الفاظ کے چناو ، غرض یہ کہ مکمل شخصیت کا جائزہ لے کر ہمارے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے ضرور قائم کرتے ہیں بعض اوقات ایسی صورت میں ہم نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسے تاثرات کا اظہار کرجاتے ہیں جو ہمارے کاروباری مفاد میں نہیں ہوتے  اگر چہ باڈی لینگویج بھی خوشگوار اور ناگوار تاثرات کے اظہار میں کچھ کم کمال نہیں رکھتی لیکن اس زبان کی ایک یہ خوبی ضرور ہے کہ اس میں چہرے پر ماسک چڑھانے ، لبادہ اوڑھ لینے یا وقت و حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں

دراصل جسمانی اظہار ایک باقاعدہ فن ہے جس سے ابھی کم لوگ روشناس ہیں اگر یہ طریقہ بھی عام ہوگیا تو اسے بھی زبانی اظہار کی طرح اہمیت حاصل نہیں رہے گی جو لوگ باڈی لینگویج کے فن سے آشنا ہین وہ مدمقابل کی خفیف سی مسکراہٹ سے بھی اندر کا حال پڑھ لیتے ہیں لیکن اس فن میں طاق افراد بآسنی دوسروں کو دھوکہ بھی دے جاتے ہیں ایک شخص کے زبانی کہنے سے کہ ( میں بے حد قابل ہوں ) اور ایک شخص کے تاثرات سے اس کے قابل ہونے کا اندازہ لگنے بے حد فرق ہےلیکن حقیقت یہ ہے کہ الفاظ کی نسبت چہرہ زیادہ قابل اعتماد ہے

 

باڈی لینگویج ایک بے حد قدیم فن ہے اگرچہ اس حوالے سے باقاعدہ تحقیقات ۱۹۵۰ سے شروع ہوئی جب (حرکات و سکنات) کا یک تعارف کے عنوان سے رے برڈوسٹل کی ایک کتاب مارکیٹ میں آئی اسکے بعد اس موضوع پر کئی کتابیں منظر عام پر آتی اور مقبول ہوتی رہیں خصوصا (نینی آرمسٹرونگ) کی انسانی چہرے کے تاثرات کو کیسے پہچانا اور دوسرے تک پہچایا جا سکتا ہے ) اس کتاب نے بہت شہرت حاصل کی



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160