وقت کی بے رحمیاں

Posted on at


وقت کی بے رحمیاں


آج کل سیاسی اور قومی منطر نامے پر قومی حساس اداریں موضوع گفتگو ہیں۔ جمہور کے منتحب نمائندوں اور عسکری اداروں کے سربران دونوں طرف سے جاری بیانات نے ماحول کافی تلخ کر دیا ہے،اور تیز و تند بیانات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ خصوصاً ملک میں ایک   صحافی اور ٹی وی اینکر پرقتلانہ حملہ اور اس کے خاندان کی طرف سے براہ راست احساس اداورں کو الزام تراشی سے جس نے سیاسی ماحول کو اور بھی زیادہ گرم اور گفتگو کا محور بنا دیا ہے۔ آئین پاکستان کے تحت قومی دفاعی اور حساس اداروں پر تنقید یا الزمات جس سے ان کی تضحیک ہو منع ہے۔ گو ان اداورں کے لئے ہمارا آئین ایک ڈھال اور تحفظ ہے اس کی بنیادی وجہ ملکی سلامتی کے مطالق ان اداروں کا کیلدی کردار ہے۔  ہمارے ملک میں  عدم سیاسی شعور اورعدم بصیرت کی وجہ سے ملک کے ایک پڑھے لکھئے شخص کو بھی سچائی کی کرواٹ  و جھوٹ کی لذت سے ناآشنائی ہے۔  



لیکن یہ تلخ اور سچی حقیقتوں سے پردہ ہوشی کرنا کسی طور پر دانائی نہیں، کیونکہ وقت کی بے رحم موجوں نے آج تک کسی سے رحم نہیں کیا چاہئے وہ دنیا کی کوئی معتبر شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔



وقت گزر رہا ہے اور تاریخ کے اوراق خود ہی عبارت ہو رہے ہیں۔ جب کہ تمام فریق آئین پاکستان کے تحت اس کے  احترام کو سب سے زیادہ مقدم رکھتے ہیں۔ خوبیوں کے علاوہ خامیوں کو سامنے لانا بھی  ضروری ہے خامیوں پر پردہ پوشی  وقتی ہے لیکن اس کو اشاکارہ ہونا ہے۔ خامیوں کو سامنے لانے کا واحد طریقہ مثبت تنکید اور بعث و مباحثہ ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک قومی ، علاقائی ، اور بین الاقوامی سطح پر ان اداروں کا کردار کس نوعیت کا تھا اور کیا رہا ہے۔



 وقت کی قدر کر کے وقت سے فائدہ اٹھانے والی قومیں سے وقت نے بڑا رحمدلی سے سلوک کیا اور وقت کے ضبط کو ہی بروئے کار لا کر آج قومیں ترقی اور خوشحالی کی صف میں کھڑی ہیں۔ وقت سچا اور کھرا ہے اور قوموں کو بلا لحاظ و خاطر میں لائے بغیر اپنی اپنی منزلوں کی جانب لے جا رہا ہے۔  اور قیام پاکستان سے پہلے بھی برصغیر کی مسلم قوم نے بڑا تلخ اور نازک وقت دیکھا لیکن مشکلات و مصائب سہنے کے باوجود استحکامت اور جدوجہد سے وقت کی رحمدلی کا فائدہ اٹھایا اور دنیا کے نقشے  پر نئے ملک کا اضافہ کیا لیکن قیام پاکستان کے بعد ملک کے انہی غیور عوام نے بہت تلخ اور بے رحم وقت دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔



کسی بھی ملک کی اصل طاقت جمہور ہی ہے اور جمہور سے تخلیق کردہ نظام جمہوریت کی حکومت۔ جس کا احترام ہر صورت ناگیز ہے۔  خدا نے صرف ایک انسان کو اشرف المخلوق کا درجہ نہیں دیا بلکہ تمام دنیا کے روح البشر برابر کے شریک ہیں اور قدرت کا یہی دستور ہے۔ جسے ہمارے رویوں اور سوچوں نے طبقات و اعلیٰ اور ادنیٰ درجوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ماضی میں درج شدہ تاریخ کے اوراق عیاں ہیں اور سامنے آرہے ہیں قومی اساس اداروں کی پردہ پوشی کہاں تک مفید رہی جو وقت کی بے رحم سچائی کی کرواٹ نے اجاگر کر دی۔  مشرقی پاکستان کی جدائی کے ساتھ ہم نے کشمیر کا وہ علاقہ بھی کھو دیا جسے لداخ کہتے ہیں جو قائداعظم ؒ کے کہنے پر قبائلی لوگوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد با زور بازو لیا تھا لیکن متنازہ علاقہ ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت اجاگر نہیں ہو سکی۔



اور بھی بے شمار ان اساس نوعیت کے اداریں کےکانامے ہیں جس سے ملکی تاریخ سیاہ ہے لیکن دستور و آئین کا تقدس مقدم ہے۔ پھر بھی وقت کی بے رحم سطروں میں عبارت ہیں جو بعد کی آنے والی نسلوں کے لئے سبق آموز ہو گی۔ علاوہ ازیں ملک میں سیاسی قائدین کو مثبت تنکید کا حق تو ہے لیکن بے باکی کے ساتھ اساس ملکی سلامتی کے نوعیت کے اداروں کے ساتھ براہ راست ٹکر کسی صورت مفید نہیں جبکہ ملک میں پہلے سے ہی خانہ جنگی کا ماحول ہے۔ اس ضمن میں ان قومی سلامتی کے اداروں کی تضیحک حوصلہ افزاء نہیں۔



لب لباب یہی ہے وقت کی قدر سے ہی زندگی ایک ضبط میں رہتی ہے۔ قومی سطح پر ہر فرد کے لئے مساوی حقوق اور انصاف خوشحالی اور ترقی کا ضامن ہے۔  فیصلے دوررس ہونے چائیے نہ کہ وقتی۔ قومی و علاقائی سطح پر تمام جملہ سیاسی جمہوری قائدین کی مشاورت اور باہمی اعتماد کی فضا ہو۔ اساس اداروں کا کردار اپنی جگہ لیکن سیاسی قائدین اگر پرخلوص ، دیانت داری اور حب الوطنی کا مظاہرہ کریں ملک خوشحال بھی ہو گا غیرملکی طاقتوں کے خطرناک عزائم کے ایجنٹے کی تکمیل سے بھی بچا رہے گا۔


Blogger Riafat Khan


To read more blogs please visit at


http://www.filmannex.com/riafat-khan/blog_post


and for watch videos


http://www.filmannex.com/riafat-khan/movie


 



160