پاکستان میں وصیت نامے میں شرعی قوانین کے مطابق دولت اور جائیداد کی تقسیم ہوتی ہے یعنی وصیت نامے کے مطابق آپ کے فلاں فلاں ورثا ہیں ان کا یہ حصہ بنتا ہے تو اس سے ورثا کے لیے سہولت اور آسانی پیدا ہوجاتی ہے پاکستان میں کوئی بھی فرد اپنی زندگی میں چاہے تو اپنی تمام دولت وجائیداد اور دیگر املاک یا ان کا کچھ حصہ کسی بھی فرد یا خیراتی ادارے کو دے سکتا ہے لیکن اگر وہ چاہے کہ اسکہ موت کے بعد اسکی دولت و جائیداد میں سے کسی بھی خیراتی ادارے کو کچھ دیا جائے تو وہ صرف ایک تہائی حصہ دینے کی وصیت کر سکتا ہے اس سے زیادہ کی وصیت کرنا کارآمد نہیں ہوگا باقی تمام دولت وجائیداد شرعی قوانین کی مناسبت سے تقسیم ہوگی خواہ وصیت کچھ بھی ہو
وصیت کیسے لکھی جائے۔ وصیت ہاتھ سے بھی لکھی جاسکتی ہے یا پھر وصیت کنندہ اسے ٹائپ کروا کر اس پر دستخط کر سکتا ہے وصیت نامے کی زبان سلیس ، ساف اور سادہ ہونی چاہیے ہر بات کا مطلب واضح ہونا چاہیے بہتر یہ ہوتا ہے کہ وصیت نامے پر دو گواہوں کے دستخظ بھی موجود ہوں وصیت نامے کی تصدیق کرانا ضروری نہیں ہوتا لیکن اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ بعد میں کوئی دعوے دار وصیت نامے پر موجود دستخطوں کو چیلنج کردے کہ وہ وصیت کنندہ کے نہیں ہیں اس لیے دستخطوں کی تصدیق کرا لینا بہتر ہے
وصیت نامہ کہاں رکھنا چاہیے ۔ وصیت نامہ کسی قابل اعتماد دوست رشتے دار ، وکیل یا چارٹرڈ اکاونٹنٹس کی کسی فرم کے پاس کسی سیف ڈپاذت باکس میں یا کسی بھی ددوسری محفوظ جگہ پر رکھا جاسکتا ہے جس کے بارے میں ورثا کو مطلع کردیا جائے اور ایسا طریقہ کار وضع کر دیا جائے کہ وصیت کنندہ کے انتقال کے بعد اسے آسانی سے حاصل کر سکیں وصیت کنندہ اپنی زندگی میں وصیت نامے میں تبدیلیاں بھی کر سکتا ہے اور اسے منسوخ بھی کر سکتا ہے اگر ورثا نابالغ ہوں اور وصیت کنندہ کو کسی بھی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بتکنی موت کا اندیشہ ہو تو اہ اپنی دولت وجائیداد کی نگرانی اور نظام چلانے کے لیے کسی فرد یا ادارے کو ٹرسٹی مقرر کر سکتا ہے تاوقتیکہ ورثا طور قانونی پر بالگ ہو جائیں
پاکستان میں وصیت نامے کی عدم موجودگی میں بھی ورثا کی باہمی رضامندی سے دولت و جائیداد شرعی قوانین کے مطابق تقسیم ہوتی ہے لیکن اگر کسی قسم کا تنازعہ اٹھ کھڑا ہو تب بھی عام عدالتین شرعی قانین کی روشنی مین فیصلہ دیتی ہیں۔