خودی زندگی کا ہی ایک دوسرا نام ھے۔

Posted on at



 


اقبال کے فلسفے کی بنیاد ہی خودی ھے۔ اقبال کی تمام سیاسی سوچ خودی کی بنیاد پر ہی ھے۔ علامہ اقبالؒ نے مختلف مواقع پر خودی کے مختلف مطلب بتاۓ ہیں۔اگر چہ یہ ایک دوسرے منفرد ہیں مگر اپنے اندر ایک ہی مضمون پنہا رکھتے ہیں۔


خودی محبت کے مترادف ھے۔


خودی ذوقِ تسخیر ھے۔


خودی خدشناسی ھے۔


خودی ایمان کی انتہا ھے۔


خودی زندگی کا سرچشمہ ھے۔


وجدان کی صلاحیت خودی کیلئے مددگار ہوتی ھے۔یہ انسان کے اندر اخلاقی اور روحانی صفات پیدا کرتی ھے۔ یہاں خودی کے پیچھے لازمی ایک محرک ہونا چاہیے جو خودی کو اپنی تکمیل تک پہنچاۓ۔اور محبت ہی ایسا محرک ھے جو خودی کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ھے۔ خودی کیلیے محنت شرط ھے۔ تاکہ وجدان سے فیضانِ الہٰی حاصل کیا جاسکے۔خودی ایک عطیہ نہیں بلکہ یہ محنت کا ثمر ھے۔


علامہ اقبالؒ نے خودی کا تصور مولانا رومی کے فلسفے سے لیا ھے۔ اقبال نے مشرق اور مغرب کے تمام فلسفیوں کے کام کو پڑھا مگر اقبال کی فکر کا بنیادی ڈھانچا اسلامی تعلیمات پر ہی استوار ھے۔اقبال نے فنونِ لطیفہ کو کوئی اہمیت نہیں دی کیونکہ یہ خودی کی فکر میں ڈھیلا پن پیدا کر دیتی ہیں۔


خودی کی منزلیں۔


اقبال کے مطابق خودی کی تین منزلیں ہیں ۔


اطاعتِ الہٰی۔


خودی کی پہلی سیڑھی اطاعتِ الہٰی ھے۔ اس منزل پہ انسان خود کو ان قوانین اور تعلیمات کا عادی بناتا ھے جو اللہ نے مخلوق کیلیے وضع کیے ہیں۔اس منزل کو طہ کرنے کے بعد صبر اور اختیار کا فرق ختم ہو جاتا ھے۔


ضبطِ نفس۔


خودی کی دوسری منزل ضبطِ نفس ھے۔جب خودی خود کو اللہ کا طابع بنا دیتی ھے تو اس کے اندر ایک طاقت اور توانائی پروان چڑھنا شروع ہو جاتی ھے۔اس منزل پہ انسانی جذبات اور خواہشات کو قابو میں رکھنے کیلیے خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ھے۔


نیابتِ الہٰی۔


تیسری منزل نیابتِالہٰی ھے ۔ اطاعتِ الہٰی اور اور ضبطِ نفس کی منزلیں طہ کرنے کے بعد ۔ خودی اوجِ کمال کے درجے کو پہنچ جاتی ۔ جس کو اقبال نے ان لفظوں میں بیان کیا ھے۔


"خودی  کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے


خدا بندے سے خود پوُ چھے بتا تیری رضا کیا ھے"



About the author

SZD

nothing interested

Subscribe 0
160