جب ایک بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اکثر گھرانوں میں سوگ منایا جاتا ہے کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے جہالت کی انتہا وہاں شروع ہوتی ہے جب کچھ والدین غصے سے اپنی بیٹی کو داروامان چھوڑ جاتے ہیں یا ایسی جگہ پھینک دیتے ہیں یا تو وہ مر جاتی ہے اگر بچ جاتی ہے تو ساری زندگی یہ سوچتی رہتی ہے کہ اس کا قصور کیا تھا جو اس کے والدین نے اس کے ساتھ ایسا کیا اور اگر رکھ لیتے ہیں تو بے دلی سے پالتے ہیں کوئی بھی بات ہوتی ہے تو اسے لڑکی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔
اسے ہر وقت یہ کہا جاتا ہے کہ ماں پاب کا گھر تمہارا نہیں تمہارا اصل گھر تمہارے شوہر کا ہے جب لڑکی بڑی ہوتی ہے ماں باپ اس کی ضرورت کی چیزیں اکٹھی کرتے ہیں اور اس کو رخصت کرتے ہیں اور اکثر والدین کو میں نے یہ بھی کہتے سنا ہے کہ اب تمہارا اس گھر سے جنازہ ہی اٹھے جو بھی بات ہو اسے اپنے گھر ہی ہینڈل کرنا اور صبر شکر کر کے ادھر ہی گزارا کرنا ان باتوں سے اکثر لڑکیاں تب پریشان ہوتی ہیں جب انہیں سسرال والے یا شوہر قبول نہیں کرتا جب وہ واپس گھر آتی ہے تو ماں باپ بھی اسے گھر رکھنے پر راضی نہیں ہوتے اور اسے ہی الزام دیا جاتا ہے کہ تم نے ہی ایسا کچھ کیا ہو گا جو تمہارے سسرال والوں نے تمہیں گھر سے نکال دیا لڑکی کہتی رہتی ہے کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔
والدین ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ اپنی بیٹی پر اعتبار کیوں نہیں کرتے؟وہ یہ کیوں نہیں سوچتےکہ ان کی بیٹی کہاں جائے گی؟یا اسے رکھ لیا جاتا ہے تو اتنا تنگ کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ گھر سے نکلنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور دار و امان کا رخ کرتی ہے۔
لیکن جب وہ کسی شرٹرہوم یا دار و امان یا کسی ایسے ادارے میں جہاں بے سہارا لوگوں کو پناہ دی جاتی ہے ] جاتی ہے اس کی عزت ادھر بھی مخفوظ نہیں اسکو طرح طرح طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے اسے غلط کام کرنے پر اکسایا جاتا ہے اور اگروہ انکار کرتی ہے تو اس مار دیا جاتا ہے یا بیچ دیا جاتا ہے۔