بے زبان

Posted on at


زبان خدا کی عطا کردہ ایک نعمت ھے جس سے ہر خاص و عام کو نوازہ گیا ہےِ۔تمام مخلوقات کلام کرتی ہیں ہر ایک کو قوت گویائ عطا کی گئ ہےجس سےوہ اپنے ارادے اور عمل سے اپنے ساتھی کو باخبر کر سکتی ہیں مگر ہر ایک مخلوق کی بولی مختلف ہے جسے کوئ دوسری مخلوق نہیں سمجھ سکتی مثال کے طورپر یہ پرندے ان کو قوت گویائ عطا کی گئ ہے مگر پھر بھی یہ بےزبان ہیں  

ان کے وجود میں بکھرے خوبصورت رنگ ان کی خوبصوتی کی دلیل  ہیں یہ معصوم مخلوق کلام کرنا      جانتی ہےمگر بے بس ہے کہ انسان جیسی ایک خود پسند مخلوق بھی اس سر زمین پر بستی ہے۔ جو ان جانداروں کی بو لی سے لا علم ہے انسان ان پرندوں سے ان کی خوبصورتی کی وجہ سے محبت کرتا ہے اور اسطرح ان معصوموں کو ان کی اس حوبصورتی کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ان کی التجاؤں ان کی تمناؤں سے انسان کو کیا سروکار وہ تو انھیں قوت گویائ رکھنے کے باوجود بے زبان سمجھتا ہے اسی لیے وہ انھیں کبھی اپنی اداسی یا تنہائ دور کرنے کیلئے اپنا جی بہلانےکیلئے قید کر لیتا ہے۔ وہ ان کو قید میں رکھتا ضرور ہے مگر ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے  اور ان سے محبت کا اظہار بھی کرتا ہے یعنی کے وہ اس مفروضے پر عمل تو کرتا ہے کہ ہر مخلوق کو زندہ رھنے کا حق ہے مگر اس بات کو فراموش کر دیتا ہےکہ اپنی مرضی اپنی پسند کے مطابق زندہ رہنے کا حق ہے۔ چڑ یا گھر اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ محبت کرنا اچھی بات ہے مگر کسی کو قید کر لیناِ،اس سے زندگی کا مقصد ،ان کی آزادی چھین لینا یہ کیسی محبت ہے صرف یہی نہی بلکہ شکار جیسے گنونے کھیل کے شوقین اسے محض ایک تفریح سمجھتے ہیں مگر کس قدر قیمتی جانوں کا ضیائع محض ان کی اس تفریح بلکہ ان میں سے بہت سی معصوم جانیں شکار جیسے گنونے کھیل کی نزر ہو جا تی ہیں جسے اس کے شوقیں محض ایک تفریح سمجھتے ہیں ضرورت صرف اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا جا ئے کہ تمام محلوقات کو اپنی زندگی آزادی سے گزارنے کا حق ہے

زرا سوچیئے اگر کوئ ہم سے ہماری آزادی جیسی نعمت چھین لے اور ہمیں زندان میں ڈال دے تو ہمارے شب و روز کس کیفیت سے دو چار ہوں گے یا کوئ ہم سے بغیر کسی وجہ کے زندگی جیسی انمول نعمت چھین لے تو

  زرا سوچیے!



About the author

160