(2) اسلام کا نظام اخلاق

Posted on at


انسان کے اندر اخلاقی حس ایک فطری حس ہے جس کی بنا پر انسان بعض صفات کو پسند اور بعض کو نہ پسند کرتا ہے-یہ انفرادی طور پر انسانوں میں کم و بیش ہو سکتی ہے لیکن عمومی مشیدا ہے کہ مجموعی طور پر انسانیت کے شعور نے اخلاق کے کچھ اوصاف پر خوبی اور کچھ پر برائی کا ہمیشہ یکساں حکم لگایا ہے-سچائی ،انصاف ،پاس عہد اور امانت کو ہمیشہ سے انسانی اخلاقیات میں مستحسن خیال کیا گیا ہے اور کبھی کوئی ایسا دور نہیں گزرا .

 

جب جھوٹ ظلم،بعد عہدی اور خیانت کو پسند کیا گیا ہو –ہمدردی ،فیاضی اور فراخ دلی کی ہمیشہ قادر کی گئی ہے اور خودغرضی ،سنگ دلی ،بخل اور تنگ نظری کو کبھی بہ تحسین نہیں دیکھا گیا –صبر و تحمل .استقلال و بردباری ،شجاعت ،ہمیشہ سے وہ اوصاف رہے ہیں جو داد کے مستحق سمجھے گئے اور بے صبری ،چیچورا پین ،تلوں مزاجی ،پست حوصلگی اور بزدلی کو کبھی بھی ستائش و آفرین کے لائق نہیں سمجھا گیا – اس سے معلوم ہوا کہ انسانی اخلاقیات دار اصل وہ عالم گیر حقیقیتیں ہیں،جن کو سب انسان جانتے چلے ارہے ہیں –نیکی اور بدی کوئی ڈھکی چھپی چیزیں نہیں ہیں،کہ انہیں کہیں سے ڈھونڈ نکالنے کی ضرورت ہو-وہ تو انسان کی جانی پہچانی چیزیں ہیں ،جن کا شعور فطرت انسانی میں ودیعت کیا گیا ہے-

یہی وجہ ہے کہ قران پاک اپنی زبان میں نیکی کو "معروف" اور بدی کو "منکر" کہتا ہے-یعنی نیکی وہ چیز ہے جسے انسان بھلا جانتے ہیں اور منکر وہ جسے کوئی خوبی اور بھلائی کی حثیت سے نہیں جانتا- اس حقیقت کو قران پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے : "نفس انسان کو خدا نے برائی اور بھلائی کی واقفیت الہامی طور پر عطا کر رکھی ہے- لیکن سوال یہ ہے کہ اگر برائی اور بھلائی جانی پہچانی چیزیں ہیں اور دنیا ہمیشہ سے بعض صفات کے نیک اور بعض کے بعد ہونے پی متفق رہی ہے تو پھر دنیا میں مختلف اخلاقی نظام اور نظریہ کیوں ہیں ؟ اور اخلاق کے معملہ میں آخر اسلام کا وہ خاص عطیہ کیا ہے ؟ جسے اس کی امتیازی خصوصیت کہا جا سکے .



About the author

160