بچپن میں گاؤں کی چند یادیں
مجھے یاد ہے جب ہمیں بچپن میں لاہور سے گاؤں جانا ہوتا تھا تو پہلے گرمیوں یا سردیوں کی چھٹیوں کا انتظار کرتے تھے جب چھٹیاں آتی تھیں تو ابو جان سے سب بہن بھائی مل کر کہتے تھے کی ہمیں نانی جان پاس جانا ہے ہمیں لے کر چلو پھر آخروہ دن آجاتا تھا جب ہم گاؤں جانے کی تیاریاں کرتے تھے ساری رات ہمیں نیند نہیں آتی تھی اور ہم صبح کا انتظار کرتے تھے کہ کب صبح آئے اور کب ہم بس میں بیٹھ کر گاؤں جائیں گے اللہ اللہ کر بکے صبح ہوتی تھی سارے بہن بھائی مل کر دوکان سے چیزیں لیتے تھے کہ سفر میں کھائیں گے ابو جان تانگا لاتے تھے اور ہم تانگے میں بیٹھ کر اڈے پر پہنچتے تھے
پھر ٹکٹ لے کر بس میں بیٹھتے تھے اور لڑائی شروع ہو جاتی تھی کہ کھڑکی کی طرف میں نے بیٹھنا ہے وہ مسلہ ابو جان خل کرتے تھے تو ہمیں بھوک لگ جاتی تھی ابھی بس نہیں چلی ہوتی تھی جو چیزیں گھر سے اکھٹی کی ہوتی تھی وہ کھا لی جاتی تھیں اور فرمائش کی جاتی تھی کہ یہ ختم ہو گئی اور لے کر دو اللہ اللہ کر کے بس چلتی تھی سڑکیں اور بسیں نہ ٹھیک ہونے کی وجہ سے سارا دن لگ جاتا تھا سفر کرتے کرتے
رات کو جب ہم شہر پہنچتے تھےتو ماموں جان گاڑی لے کر کھڑے ہوتے تھے تو ہم گاڑی میں بیٹھ کر گاؤں کے لیے روانہ ہوتے تھے جب گاؤں پہنچتے تھے تو نانی جان اور خالہ جان آگے انتظار کر رہی ہوتی تھیں کھانا کھانے کے بعد سو جاتے تھے اور صبح کا انتظار کرتے تھے کہ کب صبح آئے گی اور کب ہم سب لوگوں کو بتائیں گے کہ ہم لاہور سے نانی جان کو ملنے آئے ہیں اور جو چیزیں نانی جان نے ہمارے لیے بنائی ہیں وہ ہمیں دیں گی اور ہم کھائیں گے۔
باقی اگلے حصے میں