بچپن میں گاؤں کی چند یادیں حصہ سوئم
جب بھی ہم گاؤں جاتے تھے ایک دفعہ کھیتوں کی سیر کے لیے ضرور جاتے تھے ہم سب بہن بھائی اوقر کزنز ابو جان سے فرمائش کرتے تھے کہ ہم نے باغ میں جانا ہے ادھر سے پھل خود توڑ کر کھانا ہے اور جانا بھی گدا گاڑی پر ہے ابو فام ہاؤس سے گدا گاڑی لاتے تھے اور ہم سب مل کر کھیتوں کی سیر کے لیے جاتے تھے راستے میں سڑک خراب ہونے کی وجہ سے اپنی گدا گاڑی گڈے میں پھنس جایا کرتی تھی اور سارے بہن بھائی کزنز مل کر زور لگاتے تھے اور گدا گاڑی کو گڈے سے باہر نکالتے تھے جب پہنچ جاتے تھے تو درختوں سے پھل اتارتے تھے اور خوب مزے کرتے تھے۔
ہم سب مل کر نہر پر نہانے جاتے تھے کبھی تو نہر میں پانی زیادہ ہوتا تھا تو نہر کے کنارے بیٹھتے تھے اور اگر پانی کم ہوتا تھا تواندر جا کر خوب مزے کرتے تھے اور ریت سے سیپیاں اکٹھی کرتے تھے ابو ہمیشہ کہتے تھے کہ یہ گندی ہوتے ہیںان کوپھینک دو لیکن وہ ہمارے لیے نئی چیز ہوتی تھی ہم گھر لاتے تھے اور ان کے اندر سوراخ کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ کسی طریقے سوراخ ہو جائے اور ہم ہار بنائیں لیکن وہ ایسے ہی ٹوٹ جایا کرتی تھیں ۔
جب گھر واپس آنا ہوتا تھا تو ہم سب بہت اداس ہوتے تھے حالانکہ نانی جان ہمارے ساتھ بہت ساری چیزیں بھجتی تھیں جن میں اگر سردی ہے تو السی کی پینیاں اور اگر گرمی ہے تو چاولوں کی پنیاں۔ دیسی گھی۔میٹھی گندم۔وغیرہ دے کر بھجتی تھیں لیکن پھر بھی ہمیں افسوس ہوتا تھا کہ ہم گھر واپس جا رہے ہیںاس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن کو یاد کر کے بہت مزہ آتا ہے اور بچپن یاد آتا ہے یہ سب باتیں مجھے تب یاد آئیں جب میں اپنے گاؤں اپنی بیٹی کو لے کر گئی اور کوا اس کے ہاتھ سے کھانا کھنچ کر لے گیا اور وہ چلائی میں ہنسی اور نانی جان کو کہہ رہی تھی کہ ہم بدل گئے ہیں بڑے ہو گئے ہیں لیکن آپ کے گاؤں کے کوے نہ ہی بڑے ہوئے ہیں اور نہ ہی بدلے ہیں۔