حضرت عمرؓ کی کرامات

Posted on at



جب مصر فتح ہو گیا تو بوُنہ جو اس دور کا مصر کا مشہور شہر تھا، اس کے باشندے فاتح مصر عمرو بن العاص کے پاس آۓ اور کہا :


اے امیر یہ ہمارا دریاۓ نیل ' کسی حال ' اس کے بغیر ' رواں ہی نہیں ہوتا ۔


عمرو بن العاص نے پوچھا :۔


کس حال کے بغیر ؟


لوگوں نے کہا : " جب اس مہینے میں بارہ دن باقی رہ جاتے ہیں ہم کسی دوشیزہ کو اس کے والدین سے حاصل کرتے ہیں اور اس دوشیزہ کو ہم بہترین زیورات اور لباس زریں سے مزین اور آراستہ کر کے دریا میں ڈال دیتے ہیں اور پھر یہ دریا جاری ہو جاتا ھے"۔


جلیل القدر صحابی نے فرمایا : " اسلام ان چیزوں کی اجازت ہر گز نہیں دیتا ۔ اسلام کی بزمِ فکرِ نو ان اوہام کو ختم کرنے کی داعی ھے"۔ لوگ بہر حال منتظر ہی رہے اور سواحل نشیں دریا کے پانی کی آس لگاۓ بیٹھے رہے ، لیکن اب کی بار نیل میں بلکل روانی نہ پیدا ہوئی۔


عمرو بن العاص نے اس صورتِ حال کی اطلاع امیر المؤمنین کو دے دی۔ فاروقِ اعظمؓ نے انہیں لکھ بھیجا۔


"آپ نے ٹھیک فیصلہ کیا ھے۔ اسلام کہن کو مٹا دیتا ھے"۔


امیر المؤمنین نے اسی نامہ میں ایک رقعہ بھی رکھوا دیا اور فاتح مصر کو لکھا کہ اس نامہ کے ساتھ ساتھ ایک رقعہ بھی ملفوف کر رہا ہوں ۔ جب یہ نامہ آپ تک پہنچے تو اس منسلکہ رقعہ کو دریا نیل میں ڈلوا دیجئیے گا ۔ اس رقعہ میں ذیل کے الفاظ لکھے ہوے تھے۔


اللہ کے بندے عمر کی جانب سے مصر کے دریا نیل کے نام۔


"اے نیل ! اگر تو پہلے رواں تھا اور اب رواں نہیں ھے اور اگر اللہ تجھے رواں کرتا ھے تو ہم اسی سے یہ التجا کرتے ہیں کہ وہ تجھے جاری کر دے"۔


مصر کے لوگ جن کی معاشی فلاح و بہبود نیل پر منحصر تھی ۔ ترکِ وطن کی تیاری کر رہے تھے ۔ لیکن عمرؓ کا رقعہ دریا میں ڈالا گیا تو دوسری صبح ہی دریا کا پانی اپنی گہرائی سے سولہ گز اوپر چڑھ آیا اور پھر مصر میں خشک سالی کی نوبت آج تک نہیں آئی۔


جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم


دریاؤں کے دل جس سے دہل جایئں وہ طوفان



About the author

SZD

nothing interested

Subscribe 0
160