صحت مند معاشرے کے قیام کی ضرورت

Posted on at


صحت مند معاشرے کے قیام کی ضرورت


 عصر حاضر میں انسانی صحت کو نت نئی بیماریوں کو سامنا ہے اور خصوصاً ترقی پزیر ممالک میں ہر خاندان کے افراد کو بیماریوں نے گھیرا ہوا ہے ۔  دیہی علاقوں میں بیماریاں نسبتاً شہریوں علاقوں کے کم ہیں کیونکہ دیہی علاقوں کے افراد ہر کام جسمانی مشقت کا استعمال کر کے کرتے ہیں اور گھریلو غذائیں استعمال کرتے ہیں ، دودھ ، گھی وغیرہ اور سبیزیاں بھی اپنی اگائی جاتی ہے۔  لوگ روزانہ پیدل سفر کرتے ہیں۔ جو انسانی جسم کے لئے نہایت مفید سمجھا جاتا ہے۔  کھیت میں کام کرنا اور پسینہ آنا ، جسم کو چست و توانا رکھتا ہے۔  لیکن پھر بھی سب چیزیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں جو ہمارے ملک کو سب سے بڑا مسلہ ہے وہ صفائی کا ہے۔ فضائی ماحول فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھویں سے آلودہ ہے۔ شہروں میں تنگ گلیاں اور گھروں کے آگے نکاسی آب کے لئے بنی ہوئی بدبودار ، بغیر ڈکی نالیاں جو مچھرروں کے ساتھ کئی دیگر خطرناک جراثیم کی پرورش گائے ہیں۔  جن کی وجہ سے ہمارے شہر کے مکین کئی ایک مہک بیماریوں کا شکار ہے ۔ وبائی امراض جو اب تو گھر گھر میں ہیں۔ بچے بڑے سب ہی کسی نہ کسی مرض کا شکار نظر آتے ہیں۔



 


  صفائی کے عدم دستیابی کے ساتھ ہماری روزمرہ کی استعمال شدہ خوراک بھی بیماریوں کی وجہ ہے، شہروں میں حکومت کا قائم ادارہ محمکہ خوراک اور اس سے وابستہ  فوڈ انسپکٹر کا کام بازاروں اور منڈیوں کا چکر لگانا ہے  سبزیوں کو معائنہ کرنا ہے  اور ہفتہ بھر کی باسی سبزیوں کی روک تھام کرنا اور اُن کی فروخت پر نظر رکھنا ہوتا ہے، اسی طرح قصائی کی دوکان پر گوشت کا معائنہ ، زبیحہ خانوں کا معائنہ کی اہم ذمہ داریاں بھی اسی ادارے کو سونپی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منڈی کے نرخ ناموں کو چیک کرنا بھی انہی کی ذمہ داریاں ہیں۔ لیکن اس ادارے کی عدم دلچسپی کے باعث حالات ان کے برعکس ہیں۔  




کچھ بیماریوں کا تعلق ہمارے معاشرتی حالات سے بھی وابستہ ہے، بے روزگاری، غربت، ناانصافی، ظلم بھی بیماریوں کا موجب ہوتے ہیں۔


دل کا عارضہ ایسا مرض بن گیا ہے جس کا کچھ عشرے پہلے تک نام بھی نہ تھا۔  اب یہ اکثر عمر یافتہ افراد کی بیماری بن چکی ہے۔  اس عارضہ میں مبتلا ہونے ایک عام وجہ ہماری روزمرہ کی خوراک بھی ہے ۔  کولیسٹرول یا چکنائی کی زیادتی جو جو خون کی شیرانوں میں جم کر ان کو تنگ کر دیتی ہے اور جسم کے اندر خون کے دورانیوں کو تیز کر دیتی ہے جس کا براہ اثر ہمارے قلب پر پڑتا ہے ۔ دل کا دورہ جو انسانی جسم کو منٹوں کے اندر ختم کر دیتا ہے۔



بلڈ پریشر کی کمی یا زیادتی شدید سر درد کا بھی باعث بنتا ہے۔ سر درد اکثر بلند افشار خون اور ذیابیطس سے ہوتا ہے ۔ اگر کوئی فرد ایک حد سے زیادہ میٹھی چیزیں کھا لے تو اکثر درد شروع ہو جاتا ہے۔   


کولیسٹرول یعنی چکنائی یقیناً موٹا گوشت ، تیل میں تلی ہوئی اشیاء جن میں پکوڑے ، سموسے وغیرہ اور گھی ، دودھ ، دہی، دالوں میں پایا جاتا ہے ۔ جو جسم کے اندر خون کی شریانوں میں جم جاتا ہے۔  سگریٹ نوشی اور حقہ چلم وغیرہ بھی دل کو عارضے میں مبتلا کرتا ہے ۔ کولیسٹرول کی موجودگی انسانی جسم میں قدرتی طور پر ایک مقدار میں موجود ہے لیکن اس کی زیادتی ہارٹ اٹیک جیسی جان لیوا بیماری کا سبب بنتی ہے۔


خون کا تیز دورانیہ اگر دل کو مفلوج نہ بھی کریں لیکن دماغ کی باریک رگوں کو زخمی کر دیتا ہے پھر وہ کوئی بھی حساس دماغی رگ بلاک ہو جاتی ہے جو فالج جیسے خطرناک مرض کا موجب بنتی ہے اور انسان کی موت کا سبب بنتی ہے اگر یہ دل خراش واقعہ نہ بھی ہو لیکن عمر بھر کے لئے محتاج ہو جاتا ہے۔  فالج ایک مہنگا علاج بھی ہے جس کا علاج غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔


شوگر جیسی خطرناک بیماری بھی دل کے عارضے اور فالج کا موجب بنتی ہے۔  انسانی جسم میں ایک مقرہ حد تک شوگر قدرتی طور پر پائی جاتی ہے لیکن کھانے پینے میں اگر اعتدال اور توازن کو ختم کر دیا جائے  کسی نہ کسی چیز کی زیادتی کی وجہ سے انسانی جسم جاں لیوا مرض کا شکار بن سکتا ہے۔



حفظ ما تقدم سبزیوں کا استعمال موجودہ دور کا تقاضا ہے۔ گوشت اور گھی اگر گھروں میں پکایا بھی جائے تو گوشت زیادہ ابلا ہوا استعمال کیا جائے  اور گھی کی کم سے کم مقدار کو استعمال میں لایا جائے۔  اپنی خورکوں میں نمک کی کم سے کم مقدار کو استعمال میں لیا جائے۔  کالی چائے کی بجائے سبز چائے کو استعمال میں لایا جائے۔ بازاروں میں بیکریوں کی بنی میٹھایاں سے پرہیز کیا جائے ، بازاروں کے پکے پکائے کھانے جو شہروں میں   گھروں میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں سے اجتناب کیا جائے۔



اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اکثر بچے دوکانوں سے سلانٹیاں ، آلو کے چپس لے کھانے کے شوقین ہیں اور ان میں استعال کرارے مصلحے جو بچوں کی صحت میں تنزلی اور قوت مدافعت میں کمی کا باعث بنتی ہے اور بچوں کو کاہل سست کر دیتی ہیں جس سے اُن کی پڑھائی میں بھی دیہان نہیں رہتا جو سکول میں مقابلے کی فضا ہونے کے سبب حساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔  جس سے ثابت ہے کہ بچے کی صحت اس کی نفسیات اور زندگی پر کس قدر اثرانداز ہے۔



اگر ہم اپنی روزمرہ زندگیوں کو اعتدال ، توازن  اور ضابطے میں ڈال لیں تو ان خطرناک بیماریوں سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔  وقت پر سونا اور نید پوری رکھنا، ورزش اور جسمانی مشقت سے وبستہ عملی کام کرنا، معمولی سفر کے لئے گاڑی کی بجائے پیدل سفر کرنا، ماحول کو صاف ستھرا رکھنا اور اپنے بہن بھائیوں ، دوست و احباب کو اس کی ضفائی ستھرائی کی تلقین کرنا اور گھروں کی سادہ لیکن صاف دھولی ہوئی تازہ اشیاء کا استعمال ایک صحت مند معاشرے کے قیام میں بڑا معاون ہے۔


 



160