پیٹو لیکن کیوں؟

Posted on at


اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں اس کیفیت میں گرفتار بہت سی لڑکیاں اور لڑکے نظر آ جائیں گے۔ اگرچہ عام لوگ بچوں اور والدین کے مابین ناخوشگوار رویے اور ٹین ایجرز یا نو عمر بچوں میں لوگ ایسی عادات کا باہمی اشتراک نہ تو سمجھتے ہیں اور نہ ہی جانتے ہیں، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جن بچوں خصوصاً ٹین ایجرز اور والدین کے درمیان خوش گوار تعلقات استوار نہ ہوں اور گھریلو ماحول بھی کشیدہ ہوں تو وہ نہ صرف ‘‘پیٹو’’ ہو جاتے ہیں بلکہ کھانے کے بعد انہیں ابکائیاں اور الٹیاں بھی آتی رہتی ہیں۔ طب کی زبان میں اس مرض کو بلیمیا کہا جاتا ہے۔ بلیمیا کا مطلب ‘‘بہت زیادہ کھانے والے’’ نکلتا ہے۔ طب کی زبان میں بلیمیا کو مرض کے بجائے ‘‘غذائی خلل’’ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اب تک بلیمیا کے غذائی خلل اور والدین کے رویوں کے درمیان واضح تعلق نہیں سمجھا جاتا تھا، ماضی میں مغرب میں کی گئی ایک طبی تحقیق کے نتیجے میں نو عمر بچوں اور بلیمیا کے خلل کے درمیان موجود تعلق کو تلاش کر کے اسے ثابت کر دیا گیا تھا۔


 


تحقیق میں کہا گیا تھا جن نو عمر بچوں پر والدین اکثر و بیشتر تنقید کرتے رہتے ہوں، ان پر بلاوجہ روک ٹوک کی جاتی ہو یا ان پر مختلف پابندیاں عائد کی گئی ہوں اور پھر یہ رویہ جاری رہے تو اس کے باعث نو عمر لڑکے یا لڑکی کے جسم بلیمیا کے خلل کو بڑھنے اور اپنی جگہ بنانے کے لیے مہمیز ملتی ہے اور ایسے بچے بہت جلد اس غذائی خلل کا شکار ہو کر ‘‘پیٹو’’ ہو جاتے ہیں۔ تحقیق کے یہ نتائج غذائی طبی جریدے میں بھی شائع ہوئے تھے۔ تحقیق کرنے والے غذائی ماہرین اور معالجین نے والدین کو مشورہ دیا تھا کہ ان کا اپنے کسی نو عمر بچے سے رویہ خوش گوار نہ ہو اور اس بچے میں بھی ‘‘خوش خوراکی’’ اور کھانے کے بعد ابکائیاں، متلی یا قے کر دینے کی علامات نظر آئیں تو سب سے بہترین علاج یہ ہے کہ اس سے پیار اور شفقت کا رویہ اپنائیں۔ یہ اس خلل سے نجات کے لیے بہترین تھراپی ہے۔


 


تحقیق کرنے والے معالجین کہتے ہیں کہ بلیمیا کا غذائی خلل مختلف اسباب کا مجموعہ ہے۔ ان اسباب میں سماجی مسائل سے لے کر جسمانی و نفسیاتی امراض تک سب امراض شامل ہیں۔ ہاں ایک بات اور وہ یہ کہ جس نو عمر بچے یا بچی میں بلیمیا کی علامات پائی جائیں اور وہ نفسیاتی طور پر ذہنی تشویش میں بھی مبتلا ہو تو پھر اس خلل میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر کسی نو عمر لڑکے، لڑکی میں بلیمیا کی علامات پائی جائیں تو بہتر ہے کہ نہ صرف ان کے ساتھ خوش گوار رویہ اختیار کیا جائے بلکہ گھریلو ماحول کو بھی خوش گوار بنایا جائے۔


 


امراضِ جسمانی غذائی خلل اور گھر کے ماحول کے مابین کہیں نہ کہیں پر اشتراک ضرور ہے اور یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے۔ اگر گھریلو ماحول کشیدہ ہو اور نو عمر لڑکا یا لڑکی اس خلل میں مبتلا ہو تو بہتر ہے کہ گھر کے ماحول کو خوش گوار بنا کر متعلقہ فرد کو اس خلل سے نجات پانے کے لیے کروائے جانے والے علاج میں بہت مدد کی جا سکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ گھر کو جنت بنایا جا سکتا ہے اور دوزخ بھی۔ اگر آپ بھی نو عمر بچوں کے والدین ہیں اور گھر میں میاں بیوی کے درمیان یا دیگر اہل خانہ کے مابین اچھے اور خوش گوار تعلقات قائم نہیں ہیں تو بہتر ہے کہ اپنے بچوں کی صحت کے لیے ہی سہی، لیکن تعلقات کو خوش گوار ضرور بنائیں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے بچے بھی اس خلل میں مبتلا ہر کر اپنی صحت برباد کر دیں۔




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160