(حصول پاکستان کے مقاصد (دوسرا حصہ

Posted on at


مسلمانوں کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کا یہ مخصوص نظریہ ‘‘اسلام’’ اتنا زوردار تھا کہ اس نے مسلمانوں کو تن من دھن کی بازی لگانے پر آمادہ کر دیا۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو مسلمانوں کو صرف عبادات کے طریقے ہی نہیں بتاتا، انہیں زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں ہدایات دیتا ہے۔ ان کا معاشرتی نظام اس نظریہ کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے ان کی معیشت کی بنیادیں علیحدہ ہیں۔ ان کے سیاست کے انداز مختلف ہیں ان کا اپنا اخلاقی نظام ہے۔ اس نظریے کی بنیاد اس حقیقت ازلی پر ہے کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا اور مالک صرف ایک خدا ہے اس نے زمین و آسمان پیدا کئے اور تمام اسباب پیدا کئے جن کی وجہ سے زندگی ممکن ہوئی۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا تاکہ وہ اسی کی اطاعت کرے، اس کی پوجا کرے اور اس کا وفادار بندہ بن کر رہے اور چونکہ مخلوق اسی کی ہے اس لیے حکومت کا حق صرف اسے حاصل ہے اس نے اپنے رضاور اپنے احکام پہنچانے کے لیے رسول بھیجے ہیں تاکہ وہ نوع بشیر کو صحیح نظام حیات کی ہدایات دے سکیں اور محمدؐ آخری نبی ہیں جن کے دیئے ہوئے نظام زندگی کو ابد تک نافذ عمل رہنا ہے۔


 


آپ کے بعد یہ فریضہ امت مسلمہ پر عائد ہوتا ہے کہ وہ کود اپنی زندگی میں بھی اس نظام ربوبیت کو نافذ کرے اور دنیا بھر کے انسانوں کو بھی اس صحیح نظام حیات کی طرف دعوت دے۔ اسلام درحقیقت ایک دعوت انقلاب ہے اور جونہی مسلمان اس انقلابی دعوت کو لے کر اٹھتے ہیں ان میں بے پناہ قوت پیدا ہو جاتی ہے اور بڑی بڑی طاقتیں ان کے سامنے خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہیں۔ برصغیر میں رہنے والی دو بڑی قوموں۔۔۔۔۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رواجوں اور ادبیات سے ہے۔ نہ ان کے درمیان باہم شادیاں ہوتی ہیں، نہ ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں، وہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسی تصورات و حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ہندو اور مسلمان مختلف تاریخوں سے نسبت رکھتے ہیں ان کی رزمیہ نظمیں، ان کے سربراہ آوردہ بزرگ اور قابل فخر تاریخی کارنامے سب مختلف اور علیحدہ ہیں۔ ایک قوم کی فتح دوسری کی شکست ہوتی ہے۔


 


چنانچہ جب مسلمان اپنی تہذیبی اقدار کے اعتبار سے اپنا ایک الگ اور جداگانہ وجود رکھتے ہیں تو انہیں اپنا تشخص برقرار رکھنے نظریاتی، مذہبی، معاشرتی اور اقتصادی کشمکش و تصادم سے نجات پانے کے لیے اور پُر امن فضا حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ایک خود مختار مسلم ریاست کی تشکیل کی جائے جو برصغیر کی ملت اسلامیہ کی آزادی کی بشارت سنائے ان کے جداگانہ تشخص اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے باعث ہو، اسلامی معاشرے کی تشکیل کا مرکز ہو، ہندوؤں کی نظریاتی تنگ نظری اور معاشری استحصال سے نجات دلائے، پر امن فضا کی حامل ہو اور ان کی زبان و ادبیات کے فروغ میں ممد ہو۔ چنانچہ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کی صبح برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے لیے نوید آزادی لے کر طلوع ہوئی۔ اس روز رمضان المبارک کی ۲۷ ویں تاریخ تھی گویا مہینہ بھی مقدس اور رات بھی برکتوں والی، جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی اور اسلامی ریاست کی نعمت سے نوازہ۔ یہ دنیا کا پہلا ملک تھا جو اسلامی نظام حیات کے نفاذ کے لیے حاصل کیا گیا۔ اس ملک کو دنیا بھر کے سامنے اسلام کا داعی بننا تھا اسے عالم اسلام کے اتحاد کا مرکز بننا تھا۔ یہ برصغیر کے مسلمانوں کی تمنا کا محور تھا اور اس کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اعلیٰ و ارفع توقعات وابستہ تھیں۔




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160