ٹیسٹ کے امتحان۔۔۔۔۔

Posted on at


       
نومبر 2012ء کے احتتام پر گلگت۔ بلتستان کے ایک مقامی اخبار "روز نامہ اوصاف" میں گلگت۔ بلتستان کے ایک مڈل اسکول میں رونما ہونے والے ایک انوکھے واقعے کی خبر شائع ہوئی۔ سیڑنا اسکول، گلگت۔ بلتستان کے جماعت ششم کے طلبا سائنس کے پریڈ میں درسی کتابیں اسکول میں چھوڑ کر اپنے علاقے میں ماحولیاتی ٓالودگی کا جائزہ لینے کے لیے نکل پڑے۔ ان طلبا نے خود اپنے سوالات مرتب کیے اور مقامی لوگوں سے مل کر ان کے جوابات بھی خود حاصل کیے۔ ان کی استانی نے ایک ایسی امتحانی بورڈ کا انتخاب کیا جس کے ساتھ مل کر طلبا میں اچھی شہری کی عادت اعر ذمہ داریاں پروان چڑھانے میں مدد ملے، یہ ہو عادات ہیں جن کی پاکستانی معاشرے میں اشد ضرورت ہے۔

      


سیدنا اسکول ٓاغا خان یونیورسٹی ایگزا مینیشن بورڈ (اے کے یو۔ ای بی) سے الحاق شدہ ہے۔ طلبا نے بلدیاتی اداروں سے جوابات حاصل کرنے کی جو سرگرمی شروع کی وہ اسی بورڈ (ایم ایس اے ایف) کا حصہ تھی۔ اس فریم ورک کے تحت مڈل اسکول طلبا میں یہ عادت پیدا کی جاتی ہے کہ انہیں زندگی میں جو بھی متنوع حالات پیش ٓاتے ہیں ان پر سوالات کعیں اور ان سوالات کے جوابات بھی تلاش کریں۔ اس عمل کے دوران طلبا کو مسائل کے حل کا طریقہ سکھایا جاتا ہے اور انفرادی اور اجتماعی فیصلہ سازی کی تربیت دی جاتی ہے۔


اخباری اطلاع کے مطابق مقامی ٓابادی نے سڑکوں پا کچرے کے ڈھیروں کا ذمہ دار میونسپل کارپوریشن اتھارٹی کو ٹھہرایا، لیکن جب طلبا نے اس بارے میں بلدیاتی افسران سے پوچھا تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔  یہ طلباء پاکستان کے نظرثانی شدہ قومی نصاب 2006ء کے مقاصد کے تحت کام کر رہے تھے۔ اس کے بر خلاف مقامی حکام کا رویہ ملکی انتظامیہ کے مقاصد کی عقاصی کر رہا تھا جو مجموعی ملکی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم حصہ تعلیم کے لیے مختص کرتی ہے۔


سوالات کے جوابات تلاش کرنا جدید تعلیم کے بنیادی خصوصیت ہے۔ نظرثانی شدہ نصاب ایسے اہم امور سے بھرا پڑا ہے جو خود طلبا کو ھی حل کرنے ہیں تاہم بدقسمتی سے ملک کے بارہ لاکھ اساتزہ میں سے بیشتر کے لیے یہ نصاب ایک بند کتاب کا درجہ رکھتا ہے۔ اس نصاب کی پہلی اشاعت کی تعداد صرف 500 تھی۔ اس کے نتیجہ میں صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈز ہی کو پاکستان کے تقریبا تمام اسکولوں میں واحد جائز اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ جیسے وسیلے سے اتنی مدد نہیں لی جاتی جتنی لے جانی چاہیے اور نہ ہی درسی کتب پر کوئی سوال نہیں اتھایا جاتا ہے، انہیں صرف حرف بہ حرف یاد کر لینا کافی سمجھا جاتا ہے۔

        



About the author

eshratrat

i really like to write my ideas

Subscribe 0
160