شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے (١)

Posted on at


ہر قوم مخصوص تہذیبی روایات .انداز فکر اور مذہبی و اخلاقی اقدار کی حامل ہوتی ہے-اور ہر شعبہ حیات انہی روایات و اقدار کی روشنی میں نشو و نما پاتا ہے-اس اعتبار سے کسی قوم کا صحیح نظام تعلیم بھی ووہی ہو سکتا ہے جو اس کی سماجی اقدار اور تہذیبی روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہو-اگر یہ نظام تعلیم ہی فرسودہ ہو تو وہ کسی انداز سے بھی قومی و معاشرتی ارتقاء کا ضامن نی ہو سکتا-چنانچہ افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان کی سیرت و کردار کی تعمیر کرنے میں جو اہمیت کسی قوم یا ملک کے نظام تعلیم کو حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور شے کو حاصل نہیں ہوتی –

انسان کی خام صلاحیتوں نشو و نما اور ترقی کے لیے تعلیم و تربیت کی رہیں منت ہوتی ہیں-تعلیم و تربیت کے ذریے ہی فرد میں اعلی صفات و خصوصیات پیدا کی جا سکتی ہیں کہ وہ نہ صرف خود ایک اچھا انسان بن سکے بلکہ اپنے ملک اور معاشرے کے لیے بھی کار آمد شخصیت ثابت ہو سکے –نظام تعلیم کی اسی اہمیت و افادیت کے پیش نظر عهد حاضر کی تمام ترقی یافتہ اقوام افراد کی تعلیم و تربیت پی زور دیتی ہیں – کیونکہ افراد کی تربیت محض افراد کی تربیت نہیں ہوتی، بلکہ اس طرح دار اصل ایک قوم کی تربیت ہوتی ہے-بقول اقبال:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

اگر کسی ملک میں ایسا نظام تعلیم رائج ہے،جو وہاں بسنے والی قوم کی مذہبی ،تہذیبی ،تمدنی و سماجی اقدار و روایات سے مطابقت نیں رکھتا تو ایسی قوم جلد یا بدیر اپنی تشکیس کھو دیتی ہے –

یہ ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمرے وطن عزیز پاکستان کا نظام تعلیم یہاں کے قومی و ملی نظریہ حیات سے متصادم ہے-حصول پاکستان کی غرض و غایت یہی تھی ے ایک الگ ایسا خطہ زممیں کو حاصل کیا جاے جہاں اسلامی اقدار اور اسلامی نظام حیات کو پروان چڑھایا جاے –اس لحاظ سے ایک ایسا نظام تعلیم پاکستان کی اولین ضرورت تھا ،جو نظریہ پاکستان یعنی اسلام کی بنیاد پر قائم ہو اور اسی نظریہ کے مطابق نئی نسل کی تربیت اسی طرز پر کرے کہ وہ قیام پاکستان کے مقاصد کو بطریق احسن پورا کرنے کے قبل ہو سکے-



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160