حضرت عکاشہؓ (۱)۔

Posted on at


 


حضرت عکاشہ کا تعلق قبیلہ بنو اسد سے تھا۔ حضرت عکاشہ کی کنیت ابو محصن تھی ۔ حضرت عکاشہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت میں دعوت حق قبول کرنے کی توفیق سے سرفراز فرمایا جب اس دعوت کو قبول کرنا تیز دھار تلوار پر چلنے کے مترادف تھا ، جب اس دعوت کو قبول کرنا موت کو دعوت دینا تھا لیکن حضرت عکاشہؓ نے جوان مردی ، شجاعت و دلیری اور ہمت و استقلال سے اعلانیہ طور پر اس دعوت کو قبول کیا اور " سابقون الاولون " کی مقدس جماعت میں اپنا نام درج کرایا پھر تا دم زیست لواۓ توحید کو تھامے رکھا ۔



قبول اسلام کے بعد حضرت عکاشہ کفار مکہ کے ظلم و ستم نہایت کشادہ دلی سے برداشت کرتے رہے ۔ بعض مسلمان تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے تھے ۔ان میں حضرت عکاشہؓ کے قبیلے کے بھی بہت سے افراد شامل تھے ۔جو حبشہ پہنچ کر سکون کی زندگی گزارنے لگے تھے ۔ لیکن حضرت عکاشہ نے حبشہ کی طرف ہجرت نہ کی ۔ بلکہ وہیں مکہ میں رہ کر کفار کے مظالم کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا اور مستقل طور پر وہیں رہے ۔ جب سرکارِ دو عالمﷺ کو اللہ ربّ العزت نے مکہ مکرمہ کو الوداع کہ کر مدینہ منورہ جانے کا حکم فرمایا ۔ اس موقع پر جن حضرات نے آپﷺ کے ساتھ ہجرت کی ، ان میں حضرت عکاشہؓ بھی شامل ہیں۔


رحمت عالمﷺ کے مدینہ طیبہ میں نزول اجلال کے بعد بہت سارے چھوٹے چھوٹے لشکر مختلف مقاصد کیلیے اطراف مدینہ میں بھیجے جاتے تھے ۔ تاکہ کفار مکہ کے شر سے مسلمان با خبر رہیں اور اسلام کی دعوت بھی دیں ۔ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی لڑائیاں مختلف قبائل سے ہو جاتیں ، ان لڑائیوں کو " سریہ " کا نام دیا جاتاھے ۔


ایک سریہ جس میں سرکارِ دو عالمﷺ نے دس یا بارہ صحابہ کرامؓ پر حضرت عبداللہ بن حجش کو امیر مقرر فرمایا ۔ اور اس مختصر سے قافلے کو نخلہ کے مقام پر ٹھہر کر قریش کی نگرانی کاکام سونپا گیا ۔ ان حضرات نے پوری ذمہ داری اور تندہی کے ساتھ اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ ان میں حضرت عکاشہ بھی شامل تھے ۔



About the author

SZD

nothing interested

Subscribe 0
160