شدت پسندی کے محرکات

Posted on at


شدت پسندی کے محرکات


پرامن ،مساوات ، عدل و انصاف پر مبنی معاشرے دنیا میں اس وقت تمدن ، تہذیب ، خوشحالی اور ترقی کے افق پرہیں۔  انتہا پسندی کیوں کر ایک منفی رویہ ہے کیونکہ اس رویے کے عادی  انسان اپنی سوچ کو انتہائی منفی قدم پر لے جاسکتے ہیں جو معاشرے کے امن کے لئے زہر قاتل ہے ۔ معاشرے میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی بنیاد  انتہا پسندی ہے۔  یہ منفی رحجانات ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کا خاصہ ہیں۔ شاہد اس کے پیچھے دنیا کی سمراجی طاقتوں کے مفادات ہو، کیوں کہ اس کی آگ افریقی ممالک سے لیکر پاکستان، بھارت، افغانستان تک پھیلی نظر آرہی ہے۔  بھارت میں اس دفعہ جو حکومت مسند پر براجمان ہے وہ بذریعہ عوامی چناؤ سے آئی ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے حکمراں جماعت کی کامیابی کی طویل فہرست میں بھارت کی سب بڑی اقلیت مسلمانوں کی ایک نشت بھی نہیں ہے۔ 



دنیا میں مسلمان کی عزت و ناموس دشت گردی کی وجہ سے نیست و نابود ہو گئی ہے۔  خون خرابہ اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام دہشت گردی کی بھنٹ چڑ گیا ہے۔  گزشتہ سالوں کے سارتے واقعات سے پتہ چلتا ہے جنتے بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے وقعات ہوئے ہیں ان میں سب مسلمان ہی قتل و غارت کا شکار ہوئے۔ بھارت میں مسلم کش فسادات میں ہندو انتہا پسندوں سے ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ آئے روز عراق میں افغانستان میں دہشت گرد بے گناہ مسلمانوں  کا ہی خون بہا رہے ہیں۔  پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل معمول بن گیا ہے۔  مساجد ، گرجؤں ، کلیساؤں میں انسانی زندگیوں کے چراغوں کو گل کیا جارہا ہے۔  ایک قدغن مچا ہوا ہے کراچی سے خیبر اور بلوچستان تک دشت کی عفریت نے خوف ڈر کا سما پیدا کیا ہوا ہے۔



دہشت گردی کا خاتمہ ناگیز ہے ، کیا یہ ملک کے اندر انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔  دہشت گردی کے پیچے کون سا نظریہ کارفرما ہے جو دہشت گرد کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے اور بے خوف ہو کر قانون کے محافظوں سے بے دریغ لڑتا ہے۔  کیا ملک میں نظام اسلامی لانے کا یہی طریقہ ہے۔ قیام پاکستان سے ملک کے اندر دینی جماعتیں ہیں جو اشاعت اسلام اور نفاذ اسلامی نظام کے لئے جمہوری طریقہ سے اور اعتدال پسندی سے کام کر رہی ہیں۔  شدت و دہشت نامی کوئی چیز ان جماعتوں میں نہیں ہیں بلکہ وہ جمہوری طریقہ سے نظام اسلام لانا چاہیتے ہیں۔  لیکن یہ بھی ممکن ہے ملک کے اندر بدعنوان ظالم  سیاست دان ، بیوروکریٹ ، آمروں ، جاگیردارں ، سرمایہ کاروں نے جو ظلم مچا رکھا ہے اُس کا یہ شدید ردعمل ہو۔ اس کی مثال قبائلی علاقوں کے عمائدین کی دی جاسکتی ہے جنہیں علاقے میں مَلک کہتے تھے جی کی تعدار پورے قبائیلی علاقے میں ڈھائی سو کے لگ بھگ دی۔ یہ مَلک حکومتی پولٹیکل ایجنٹ کے زیر نگارنی کام کرتے تھے اور علاقے کے مسائل بات چیت سے حل کرتے اور قبائلیوں کے جھگڑوں کا تصفیہ کرتے۔ حکومت کا ایجنٹ اکثر بدعنوان افسر ہوتا تھا جو قبائلی علاقوں کے وسائل پر سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا وہ علاقہ عمائدین کے ساتھ مل کر عوام کے لئے جاری فنڈز میں بدعنوانیت کرتا تھا، عمائدین اور ان پولیٹیکل ایچنٹوں کے کرتے درتے سے ہر کوئی واقف تھا نہ سکول، نہ روڑ نہ صحت کے لئے اداریں۔  جوں ہی دشت گرد افغانستان سے نکل کر پاکستانی علاقوں میں پناہ گزیر ہوئے تو ان حکومتی عمائدین کو گن گن کر قتل کر دیا گیا اور پولیٹکل ایجنٹ علاقہ بدر ہو گئے۔ پاکستان میں کیونکہ اس وقت ایک فوجی آمر تھا جس نے عوامی اور قومی مفادات کو نظر انداز کردیا۔  اُس کے اقدام نے ملک میں دہشت کی اڑتی ہوئی چنگاری کو آگ کے بڑے الاؤ کی شکل دیں دی۔  اس دہشت گردی کے آسیب کی وجہ سے ملک کو پچاس ہزار سے زائد بے گناہ انسانوں کی قربانی دینی پڑی اور سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔



کسی زمانے میں مساجد امن بھائی چارے اور محبت کی ترغیب کے مراکز تھے اب یہ مراکز امن کی جگہ جنگ اور محبت کی جگہ نفرت کی پرچار کر رہے ہیں۔


 اب بھی وقت ہے ملک میں خانہ جنگی اور دہشت گردی کا خاتمہ اُس نظام پر عمل پیرا ہونے سے ممکن ہے جو 1973 کا آئین ہے۔ جس میں ملک کا نظام شرعی اور قرآن و سنت کے حکمات کی روشنی میں ہو گا۔  اگر ملک میں انصاف، عدل اور تمام شہریوں کے مساوی حقوق ہو گے تو شدت پسندی جیسی لعنتوں کا خود بخود قلع قمع ہو جائے گا۔ قانون سب کے لئے برابر اور سخت سزائیں اور فوری عمل لانا ہو گا۔ منشیات کے سمگلروں ، اور بدعوانیت کی سزا بھی موت کر دی جائے ملک کا نظام و نسق بہتر ہو سکتا ہے ایسی سزائیں چین اور ایران میں نافذ ہیں جہاں پر معاشرہ پرامن اور خوشحال بھی ہے اور ملک ترقی کی جانب بھی گمزن ہیں۔   


 



160