معاشرے کے غلط رویوں کے بچوں کی زندگی پر اثرات حصہ دوئم

Posted on at


والدین کا بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کی زندگی پر اچھے اثرات نہیں چھوڑتے یہ وہ والدین ہوتے ہیں جو خود تو غلط کام کرتے ہیں ساتھ میں اپنے بچوں سے بھی غلط کام کراتے ہیں مثلاً بھیک مانگنا والدین جب خود بھیک مانگتے ہیں تو وہ بجائے کہ اپنے بچوں کو پڑھائیں لکھائیں اور ایک اچھا انسان بنائیں وہ ان کو بھی بھیک مانگنے پر لگا دیتے ہیں اور پھر جب ان بچوں کو پڑھنے کا کہا جائے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ کام ہمیں زیادہ پسند ہے ہم بس یہی کریں گے وہ یہ بات اس لیے کہتے ہیں کیونکہ ان کو چھوٹے ہوتے سے ہی یہ بات بتائی جاتی ہے کہ یہ کام ان کے لیے سب سے بیسٹ ہے اور وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے ایسے والدین خود اپنے بچوں کا مستقبل خراب کر دیتے ہیں۔


 



 


ہم کالج جاتے تھے تو وہاں منگنے والی خواتین آتی تھیں ایک دن ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ یہ کام کیوں کرتی ہیں چھوڑتی کیوں نہیں تو ان کا جواب تھا کہ یہ تو ہمارہ بزنس ہے ہم اس کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں ان لوگوں نے اس اس غلط کام کو بزنس کا نام دے دیا ہے اور کہتے ہیں کہ جتنی کمائی اس بزنس میں ہے اور کسی میں نہیں۔


 


 



کچھ بچوں کے والدین کا بھی چھوتی موتی چوری کی عادت ہوتی ہے جب ان کے بچے والدین کو چوری کرتے دیکھتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی غلط کام نہیں اور وہ خود بھی یہ کام کرنے لگتے ہیں اور پھر جب والدین بھی اس کام سے منع نہیں کرتے تو یہ برائی ان کے اندر بڑھتی جاتی ہے اور وہ بڑے ہو کر اچھے انسان بننے کی بجائے برے انسان کی شکل اختیار کرتا ہے اور ایک چور کے روپ میں سامنے آتا ہے۔


جاری ہے۔



About the author

mian320

I sm mr.

Subscribe 0
160