یہ ہے پاکستانی شہر فیصل آباد (آٹھ بازاروں کا شہر) حصّہ دوئم

Posted on at


سونے کی دکانوں کے بعد یہ بازار بانڈر کے کاروبار کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے ۔ سونے اور بانڈر کے کاروبار کی وجہ سے اس بازار میں خود کار کیمرے نصب ہیں۔ تاکہ ڈکیتی اور چوہدری کی وارداتوں سے بچاؤ ممکن ہوسکے ۔ ریل بازار کا نام ریلوے اسٹیشن سے موسوم کیا گیا ہے ۔ کیونکہ ریل بازار کا باہر سے رخ فیصل آباد ریلوے اسٹیشن کی طرف ہے ۔ اس بازار سے گھنٹہ گھر چوک میں آکر بائیں جانب کارخانہ بازار ہے ۔



 


اس کا نام اس فیکٹری ایریا سے موسوم کیا گیا ہے ۔ جو شہر کے صنعتی تشخص کی بنیاد ہے اس بازار میں زیادہ تر دکانیں چنیوٹ سے تعلق رکھنے والی شیخ برادری کے افراد کی ہیں ۔ جن میں کچھ نے اپنی دکانیں کرائے پر اٹھا رکھی ہیں ۔ اس بازار میں حکیموں کے دواخانے، اسٹیشنری سے لے کر کپڑے تک کی دکانیں ہیں۔ اس لیے یہاں ملے جلے خریداروں کا ہجوم رہتا ہے ۔



اور اب تو گھنٹہ گھر کے قریب کی دکانوں میں سوت کا کاروبار ہوتا ہے ۔ جس کی وجہ سے شام کے وقت یہاں رش بڑھ جاتا ہے ۔ کارخانہ بازار کے فٹ پاتھ بھی دکانوں کے قبضے میں ہیں ۔ اس لیے سوفٹ کشادہ ہونے کے باوجود بازار کی سڑک تنگ لگتی ہے۔ یہاں کافی عرصے سے نکاسی آب کا مسئلہ ہے۔ اور یہ مسئلہ ابھی تک چل رہا ہے ۔



گھنٹہ گھر چوک سے کارخانہ بازار کے دائیں جانب منٹگمری بازار ہے۔ اس بازار میں تھوک پر چون اور کریانہ کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں دھاگے ، نگینے ، موتی ، اور لیس وغیرہ کی بھی بڑی بڑی دکانیں ہیں۔ شہر بھر کی خواتین اور کاریگر کپڑوں پر کام اور کشدہ کاری کے خام مال کے لیے اسی بازار کا رخ کرتے ہیں۔




160