موجیکا تو ایک عظیم رہنما

Posted on at


موجیکا تو ایک عظیم رہنما


یہ آرٹیکل لکھنے کا ارداہ ہمارے محترم وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے اُس بیان کا ردعمل ہو سکتا ہے جس میں انہوں نے حالیہ بجٹ کی ایک بحث میں  کہا مزدور کی ماہانہ آمدن یا تنخواہ کم سے کم بارہ ہزار روپے ہو گی اور اس کے علاوہ وہ خبر جس میں حکومت نے ملک کے  سیاستدانوں ، تاجروں اور سفاتکاروں کی سیکورٹی کے لئے دو ہائی سیکورٹی بی ایم ڈبلیو لگثرری گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جن کی فی کس گاڑی کی مالیت بارہ کروڑ بنتی ہے۔  حکومتی شہزادوں اور عام عوام کے درمیان عدم مساوات کی  وسیع خلیج جو صرف سیکورٹی کی مدہ میں  بارہ کروڑ  کی گاڑی اور عام عوام کی زندگی کا پہیا چلانے کے لئے ماہانہ بارہ ہزار تنخواہ۔ اس بات کا ہرگز مقصود نہیں کہ ایک عام محنت کش پاکستانی کے لئے ایک بی ایم ڈبلیو خرید کر غریب و امیر کا فرق ختم کر دیا جائے بلکہ بات کہنے کا مقصد ایک غریب ملک میں ارباب اختیار کا سرکاری خزانے سے شاہانہ خرچ ہے جو حکومت میں براجمان بیٹھے رہنماؤں کا عوام کی غربت دور کرنے کا عدم احساس ہے۔  اس کی ہزاروں مثالیں ملک کے اندر موجود ہیں جس میں واضح معاشی عدم مساوات کے پہلو نظر آتے ہیں۔  



پچھلے دنوں ایک خبر پڑھ رہا تھا کہ دنیا کا غریب ترین صدر یوروگوئے کا ہے  اس خبر نے اس بارے مذید جانے کے لئے  تجس کو ابھارا۔ یورو گوئے کون سا ایسا عظیم ملک ہے جس کا رہنما عوامی امیدوں کا امین ہے۔  غریب ہونا تانا یا عیب نہیں بلکہ زمینی حقائق یہ نظرآتے ہیں کہ ملک کے تمام ملکی اختیارات  اور پر کشش مراعات ہونے کے باوجود ایسا فرد پھر کیونکر غریب ہے ۔



یوروئے گوئے جنوبی امریکہ کی ایک کم آبادی والی ریاست ہے جس نے اٹھارویں صدی میں برازیل سے آزادی حاصل کی تھی ملک کا سرکاری مذہب عیسائیت ہے۔ یہاں پرزیادہ تر لوگ  سپین سے آ کر  آباد ہوئے ہیں۔  یوروگوئے پر بھی کسی زمانے میں ایسے لوگوں کی حکمرانی تھی جنہوں نے اپنی شاہانہ زندگی کے لئے عام لوگوں سے ملکی وسائل لیکر اُن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہوا تھا ، عام آدمی کا معیار زندگی کو گرا دیا گیا قانوں کو حکمرانوں نے گھر کی لونڈی بنا دیاتھا۔ عدل وانصاف کو امتیازی بنا دیا گیا۔ عوام غربت اور ناانصافی کی چکی میں گہیو کی طرح پس رہئے تھے لیکن آخر کب تلک ، انسان اگر اپنی اصل حقیقت جان کر عمل پیرا ہو جائے تو فرشتے سے کم نہیں۔ انس انسان کی فطرت ہے جس سے معاشرے میں عدل و انصاف ، مساوات کا پہلو اجاگر ہوتا ہے۔  یوروگوئے کی مٹی سے ایک ایسے ہی فرشتے کی نمو ہوئی جس نے غریب عوام کی غربت اور اُسے معاشی غلامی سے نجات کے لئے پکا تہیہ کر دیا اس عظیم شخص کا نام موجیکا تو ہے۔



 


موجیکا تو نے عام عوام کے حقوق کے لئے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گوریلا جنگوں میں گزارہ۔  اس  جدوجہد کی پاداش میں اس نے اپنی زندگی کے چودہ سال قید و بند کی بامشقت سزا میں بھی گزارے اور دو سال مسلسل ایک کنویں میں پھیک دیا گیا۔  جو اس کی زندگی کے اذیت ناک لمحات تھے لیکن اس کے پختہ ارادوں کے آگے حکومتی سختی ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور بالآخر جابر حکومت کو عام معافی دیکر گھٹنے ٹیکنے پڑے۔



 


 موجیکا تو 2010 سے یوروگوئے کے صدارتی عہدے پر فائز ہیں۔  اُن کا طرز زندگی اُسی طرح سادہ ہے جس طرح صدارت سے پہلے تھی وہ کسی صدارتی محل میں قیام پزیر نہیں ہیں بلکہ وہی رہائش ہے جدھر پہلے قیام پزیر تھے وہی  فارم ہاؤس جو اُن کا آبائی گھر تھا جس میں اُن کا کوئی ملازم نہیں ہے۔ سارے گھر کے کام وہ خود اور اُن کی اہلیہ کرتی ہیں۔  اُن کی ماہانہ تنخواہ بارہ ہزار ڈالر ہے جس کا بیشتر حصہ وہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دیتے ہیں ۔ اُن کے لئے محافظ حکومتی اہکار صرف دو ہیں۔ وہ آج بھی دفتر آنے جانے کے لئے اپنی 87 ماڈل کی گاڑی استعمال کر رہے ہیں۔  انہوں نے اپنا رہن سہن عام آدمی کی سطح پر رکھا ہوا ہے۔  دنیا میں  موجیکا کو دنیا کا غریب ترین صدر کا مانا جاتا ہے لیکن وہ اس بات سے انکاری ہیں اُن کے بقول اُن کی آمدنی اُن کی ضرویات زندگی سے زیادہ ہے۔ وہ غریب نہیں ہو سکتے۔  یقیناً ایسے ہی عظیم رہنما اپنی غریب قوم کے لئے حق حکمرانی کے اہل ہیں اور ہمارے ملک کے حکمرانوں کے لئے رول ماڈل۔


 


 


 



160