‫شہزادی اور دھوبی کا بیٹا

Posted on at




مرزا مظہر ایک مشہور صوفی تھے۔ وہ ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ "ہم سے تو دھوبی کا بیٹا ہی خوش نصیب نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا"۔ ایک دن ان کے مریدوں نے پوچھ لیا کہ حضرت یہ دھوبی کے بیٹے والا کیا ماجرہ ہے؟
آپ نے فرمایا کہ ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑے دھلنے آیا کرتے تھے۔ اور وہ یہ کپڑے دھو کر، استری کر کے واپس محل پہنچا دیا کرتے تھے۔ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو جوان ہوا تو والدین کا کپڑے دھونے میں ہاتھ بٹانے لگا۔ کپڑوں میں شہزادی کے کپڑے بھی تھے جن کو دھوتے دھوتے وہ شہزادی کے نادیدہ عشق میں مبتلا ہو گیا۔ محبت کے اس جذبے کے جاگ جانے کے بعد اس کے اطوار تبدیل ہو گئے۔ وہ شہزادی کے کپڑے الگ کرتا، انہیں خوب اچھی طرح دھوتا اور استری کر کے ایک نرالے انداز میں تہہ کر کے رکھتا۔ سلسلہ چلتا رہا آخر والدہ نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا اور دھوبی کے کان میں کھسر پھسر کی کہ لگتا ہے یہ تو سارے خاندان کو مروائے گا، یہ تو شہزادی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہے۔ والد نے بیٹے کے کپڑے دھونے پر پابندی لگا دی۔ ادھر لڑکا جب تک محبت کے زیر اثر محبوب کی کوئی خدمت بجا لاتا تھا محبت کا بخار نکلتا رہتا تھا، لیکن جب اس خدمت سے ہٹایا گیا تو بیمار پڑ گیا اور چند دن کے بعد فوت ہو گیا۔
ادھر کپڑوں کی دھلائی اور تہہ بندی کا انداز بدلا، تو شہزادی نے دھوبن کو بلا بھیجا کہ میرے کپڑے کون دھوتا ہے؟ دھوبن نے جواب دیا کہ شہزادی عالیہ میں دھوتی ہوں۔ شہزادی نے پوچھا کہ پہلے کون دھوتا تھا؟ دھوبن نے کہا کہ میں دھوتی تھی۔ شہزادی نے اسے کہا کہ یہ کپڑا تہہ کرو۔ اب دھوبن سے ویسے تہہ نہیں ہوتا تھا، شہزادی نے اسے ڈانٹا کہ تم جھوٹ بولتی ہو۔ سچ سچ بتاؤ ورنہ سزا ملے گی۔ اب دھوبن کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا اور دل بھی کچھ غم سے بھرا ہوا تھا ، شہزادی کو سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ شہزادی یہ سب کچھ سن کر سناٹے میں آگئی۔ اس نے فورا سواری تیار کرنے کا حکم دیا اور شاہی بگھی میں سوار ہو کر پھولوں کا ٹوکرا بھر کر لائی اور مقتول کی قبر پر چڑھا دیے۔ زندگی بھر یہ معمول رہا کہ وہ اس دھوبی بچے کی برسی پر اس کی قبر پر پھول چڑھانے ضرور آتی ــــــــــــــــ
یہ بات سنانے کے بعد مرزا مظہر کہتے ہیں کہ اگر ایک انسان سے بن دیکھے محبت ہو سکتی ہے تو بھلا اللہ سے بن دیکھے محبت کیوں نہیں ہو سکتی؟ ایک انسان سے محبت اگر مزاج میں تبدیلی لا سکتی ہے تو اور وہ اپنی پوری صلاحیت اور محبت اس انسان کے کپڑے دھونے میں برؤے کار لا سکتا ہے تو کیا ہم لوگ اللہ سےاپنی محبت کواسی طرح دل و جان سے اس کی نماز پڑھنے میں استعمال نہیں کر سکتے؟ مگر ہم بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر شہزادی محبت سے تہہ شدہ کپڑوں کو پہچان سکتی ہے تو کیا اللہ محبت سے پڑھی گئی او بوجھ اتاری نماز کو سمجھنے سے عاجز ہے؟ 
وہ دھوبی بچہ کامیاب ہے کیونکہ اس کی محبت کو قبول کر لیا گیا جبکہ ہمارے انجام کا کوئی پتہ نہیں قبول ہق گی یا منہ پر مار دی جائے گی۔
پہر فرماتے ہیں کہ اگر یہ نمازیں نہ ہوتیں تو اللہ سے محبت کرنے والوں کے دل اس طرح پھٹ جاتے جس طرح اس دھوبی بچے کا دل پھٹ گیا تھا۔ یہ ساری ساری رات کی نماز ایسے ہی نہیں پڑھی جاتی ، کوئی جذبہ کھڑا رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ نسخہ اللہ پاک نے اپنے نبی کی حالت دیکھ کر بتایا تھا کہ" آپ نماز پڑھا کیجیئے اور رات پھر ہماری باتیں دہراے رہا کیجئے آرام ملتا رہے گا۔" اسی لئے نماز کے وقت آپ ص فرماتے تھے 
"ارحنا بھا یا بلال،اے بلال ہمارے سینے میں ٹھنڈ ڈال دے اذان دے کر"‬


View Post on Facebook · Edit Email Settings · Reply to this email to add a comment.



160