اس نے بتایا کہ پھر اسی طرح سے حالات کا مقابلہ کرتے کرتے ہم لوگ جوان ہو گئے پھر جب میری شادی کی بات امی نے شروع کی تو تمام لوگ یہ کہہ کے رشتہ چھوڑ جاتے کہ آپ لوگ اکیلے ہیں آپ کے تو خاندان والے بھی آپ لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں ہم آپ سے رشتہ کیسے جوڑیں امی نے خاندان والوں سے کہا لیکن وہ لوگ کوئی نہ کوئی بہانا بنا دیتے صرف اس لیے کہ ان لوگوں کو کہیں خرچہ نہ کرنا پڑھ جائے پھر میرے رشتے آنے بھی بند ہو گئے بھائیوں نے بھی اسی لیے شادی نہ کی کہ ہماری بہن کی شادی پہلے ہو جائے اور ہم بعد میں کریں گے لیکن ایسے کوئی حلات پیدا ہی نہ ہو سکے کہ میری شادی ہوتی ان تمام حالات اور مجبوریوں نے میری امی جان کی ذہنی حالت خراب کر دی۔
ہم جس بھی محلے میں رہتے ہیں لوگ ہم پر آوازیں کستے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ دیکھوں پاگلوں کی فیملی اس لیے ہم لوگ کہیں بھی سکون سے نہیں رہ سکتے اسی لیے اب اس محلے میں ہم لوگ امی کو گھر میں بند کر کے رکھتے ہیں لیکن یہ جب بھی گھر کا دروازہ کھلا دیکھتی ہیں تو یہ آپ کے گھر آجاتی ہیں۔ ہم نے بہت برے حالات دیکھے ہیں لیکن ہم نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا لیکن اب ہماری امی ایسا کرتی ہیں تو ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ اس کی تمام باتیں سن کر امی نے اسے تسلی دی اور سمجھایا کہ سفید پوشی بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر کوئی آپ کو خلوص دل سے کوئی چیز دیتا ہے تو اسے قبول کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں پھر امی نے اسے کہا کہ تم اپنی امی کو ہمارے گھر آنے دیا کرو اس سے ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا پھر امی نے ان کو کچھ پیسے دیے پیسے دیکھ کر ان کی امی بہت خوش ہوئی۔ اور ابو سے کہہ کے ان کے بیٹوں کو بھی کام پر لگوایا اب بھی وہ اماں جی ہمارے گھر آتی ہیں اب ان کی ذہنی حالت پہلے سے بہت اچھی ہے اور ان کے گھر کے حالات بھی۔