تعلیم اور صحت کے درمیان تعلق۔۔۔!۔

Posted on at


 تعلیم اور صحت کے درمیان تعلق۔۔۔!۔




فوکس گروپ کے مباحث میں شریک ہونے والے 1600 سے زاہد افراد کی بھاری اکثریت نے لڑکیوں کی تعداد کے متعدد فوائد شناخت کئے جو نہ صرف فرد بلکہ پورے خاندان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم جب تعلیم اور صحت کے درمیان تعلق بیان کرنے کو کہا گیا تو ایک عورت نے طنزیہ کہا ہمیں کیا پتہ کیا تعلق ہے، ہمارے پاس تو یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔




معاشی مواقع کے علاوہ تعلیم کے فوائد بیان کرتے ہوئے انہوں نے ایک پوری فہرست بنا دی جیسے یہ کے تعلیم سے اپنی ذات اور معاشرے کے بارے میں آگاہی بڑھتی ہے، صحیح اور غلط کا شعور پیدا ہوتا ہے، بیماریوں اور ان کی علامات سے متعلق آگاہی بڑھتی ہے، بیماریوں کی منتقلی کی تفہیم میں اضافہ ہوتا ہے، تعلیم جدید کاری کا ذریعہ ہے جس سے اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور عالمی تبدیلیوں تک رسائی ہوتی ہے اور بہت سے دیگر فوائد ہیں۔


 



تاہم بحث کو سمیٹتے ہوئے ایک عورت نے یہ کہہ کر اجتماعی جزبات کی نمائندگی کی کہ "یہ حقیقی تعلیم کے ممکنہ فوائد ہیں، وہ تعلیم نہیں جو ہمیں گاوی میں ملتی ہے۔"
بہت سی پیچیدگیوں کے باوجود یہ مسلہ ایسا نہیں کے حل نہ ہو سکے اور پاکستان واحد ملک نہیں جسے یہ رکاوٹیں درپیش ہیں۔ متعدد مثالیں موجود ہیں کہ اسی طرح کے مسائل سے دوچار اور اس سطح کی ترقی کے حامل ممالک خواندگی کی باوقار شرحیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔


 



خود ہمارے ملک میں بھی تقریبا تمام صوبوں اور علاقوں میں حاصے بڑے پیمانے پر کامیاب تجربے گواہ ہیں کہ محروم طبقات کے لئے معقول معیار کی تعلیم نامعقول مطالبہ نہیں۔ ان تجربات کو موزوں طور پر تحریری شکل میں لایا گیا ہے اور عام کیا گیا ہے۔ سیاستدانون اور بیورو کریٹس نے ان مقامات کا دورہ کیا، مشاہدہ کیا اور کامیابی کی ان کہانیوں کی تعریف کی لیکن جب پالیسی سازی کا معاملہ آتا ہے تو کامیابی کی ان کہانیوں سے سیکھی ہوئی چیزیں بلکل نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ تحققیق و شوائد اور پالیسی اور عمل کے درمیان جو عدم ربط ہے وہ آگے بڑھنے اور گھسے پٹے حلوں سے باہر نکل کر دیکھنے کی راہ میں سنگین رکاوٹ ہے۔


 



جیسے متعدد مثالوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دیہی علاقوں میں اس وقت تک بڑے ہیمانے پر لڑکیوں کی تعلیم ممکن نہیں جب تک خواتین ٹیچر نہ رکھی جائیں۔




سب جانتے ہیں کہ اگر خواتین ٹیچر ہوں گی تو والدین کو کم از کم پرائمری سطح پر لڑکیوں کو اسکول بھیجنے میں تامل نہ ہو گا چاہے وہاں لڑکے بھی پڑھتے ہوں۔ مجھے یاد ہے ایک عورت نے کہا تھا کہ "ہمیں ان چھوٹے لڑکوں سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگرمد ٹیچر ہوں گے تو ہم اپنی بڑی لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیج سکتے۔"
   
 
    



About the author

eshratrat

i really like to write my ideas

Subscribe 0
160