دینی علوم موازنہ عقلی علوم

Posted on at


دینی علوم موازنہ عقلی علوم


اکثر اوقات یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ہمارے ہاں دینی مدرسے کیونکر اُن دنیاوی علوم سیکھانے یا پڑھانے کی کوشش نہیں کرتے جن کی مرہون منت ہی مسلمان غیر مسلم قوم سے جدید تکنیک کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر میدان میں مقابلہ کرسکتاہے۔  اس بارے میں بہت سارے دلائل علماء اکرام  سے ملتے ہیں جس میں بہترین جواز یہی ملتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور زندگی مختصر ہے اور اس دنیا کی  زندگی میں عقلی علوم سے ایمان میں پھسلن پیدا ہو سکتی ہے۔  ایمان کا تعلق روحانیت سے ہے اور روحانیت کا دل سے۔  دل کی تاروں کا تعلق انس سے انس میں خون کے رشتے بہن بھائی ، والدین رشتہ دار۔  دل و دماغ کے فیصلوں میں بہت فرق ہے ۔  حیا دل کو صاف اور پاکیزہ رکھتا ہے جتنا دل صاف ہو گا ایمان کی طاقت زیادہ ہو گی۔  دینی علوم میں ایمان کو بنیادی حثیت حاصل ہے اور اخلاقیات میں صف اول میں آتا ہے۔  اسلام کا بہترین عملی مظاہرہ زمانہ محمدیﷺ اور زمانہ خلفاء راشدین کا مختصر دور ہے جس کے اثرات ابدی تا قیامت ہیں۔ جن  کی تعلیمات  کی سحر انگیزی ہے آج بھی اُس نظامت کے قیام کے لئے جانیں فدا ہو رہی ہیں۔ 



شہر بغداد کا نام آتے ہی مسلمانوں کی عظیم و شان تاریخ یاد آ جاتی ہے۔ آج جب بغداد کی تبائی ، خون ریزی و معصوم جانوں کی قتل و غارت اور ملکی کشیدہ حالات کا سنتے ہیں تو آنکھیں آشکبار ہو جاتی ہے اس شہر کو اسلامی امارت کا دارلخلافہ 170 ھجری ، جارجین کلنڈر کے کے مطابق 786 عیسوی میں خلیفہ ابو جعفر منصور نے  بنایا تھا۔ جس کی تاریخ کم و بیش 1300 سو سال پرانی بنتی ہے  یہ اپنے زمانے میں علوم و فنون کا گڑھ تھا۔  اپنے زمانے کا ترقی یافتہ شہر تھا جہاں ساری دنیا سے لوگ علم کی فیض یابی کے لئے اس شہر کا رخ کرتے تھے۔  مامون الرشید خلیفہ نے پہلی دفعہ اسلامی امارت میں دینی علوم کے ساتھ عقلی علوم کی بنیاد ڈالی قدیم یونان کی کتب  فلسفہ اور منطق کو قیصر روم سے منگوا کر ماہر مترجمین سے عربی زبان میں ترجمے کرائے گئے۔  اس کے دور ہی میں رصد گاہ کا قیام عمل میں لایا گیا دوربین کی ایجاد اور کرہ ارض کی پیمائش کی گئی۔




عقلی علوم ، دینی علوم سے یکسر مختلف ہے۔  عقلی علوم مذہب کی بنیادیں کو ہلا دیتی ہیں۔ قیصر روم نے سقراط ، ارسطو، افلاطون ، بقراط، جالینوس، اقلیدس وغیرہ فلاسفروں کی کتب کو اپنے ملک کے مذہبی پیشواؤں کی مشاورت سے مامون کو دیں ان کتب کو مامون نے عربی زبان میں ترجمہ کروا کے سارے ملک میں شائع کر دیں اور گھر گھر میں فلسفہ کی یہ کتب پڑھائی جانے لگی جس کی وجہ سے بغدار علم و دانش کا مرکز تو بن گیا لیکن نتیجہتاً اسلام کی روح کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا مسلمانوں کی فتحوحات کا سلسلہ تھم گیا۔ اسلام کی روحانی و اخلاقی تعلیم کی بے قدری سے مسلمان ملک اندرونی سورشوں کا شکار ہو گیا مسلمان جہاد کے اصل سبق کو بھلا چکے تھے ، کمزور ملک پر منگول قوم نے حملہ کر دیا اور اپنی بربریت اور سفاکی سے بغداد شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔



موجودہ جدید زمانہ میں عقلی تعلیم اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ دنیا میں روزانہ نت نئی ایجادات عقلی علم کی ہی بدولت ہیں۔  بحری جہاز، ہوائی جہاز، بلٹ ٹرین، جدید سہولیات سے آراستہ گاڑیاں، جدید اسلحہ سازی ، بغیر پائلٹ ہوائی جہاز، ٹینک اورسول انجیرنگ کے کمالات پل ، کثیر منزلہ عمارتیں، جدید بینکاری سٹم وغیرہ۔  اس کی علاوہ جدید افواج کی عسکری تربیت میں بھی  عقلی علم کارفرما ہے۔  ہر قسم کے حالات کے ساتھ مقابلے کے لئے سخت زہنی اور جسمانی مشقت ، جدید عسکری ہتھاروں کے استعمال میں مہارت اور سخت نظم و ضبط۔



لیکن دین اسلام آج بھی اپنے پیروکاروں کو دین اسلام کی اعلیٰ اقدار کو سیکھنے اور عمل پیرا ہونے اور کاربند ہونے کا سبق دیتا ہے اور اسلام خود ایک بہترین ضابطہ زندگی ہے اور اخلاقیات کا بہترین نمونہ۔  اس کے نزدیک تمام دنیا کے آسائشیں وقتی اور مختصر ہیں۔  اس جھلک کے نمایا مناظر جا بجا دنیا میں مسلمان ممالک میں  جنگ و جدل کی شکل میں نظر آتے ہیں۔  روحانی تعلیم اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی وجہ سے آج دین اسلام کا عقلی علوم سے شدید ٹکراؤ اور مقابلہ ہے۔




ہر جگہ دین اسلام کے فدائی اس کی اسلامی اساس کی  نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے سینہ سپرہیں اور قربان ہو رہے ہیں۔  ان قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا یا کئی جا کر تھمے گا بھی ۔ دورحاضر کے مسلمانوں کو جدید علوم یا عقلی علوم سے روشناسی کے بعد ہی مسلمانوں میں مقابلے کی صلاحیت آئے گی ورنہ آسمان کی طرف بندوقچیاں کرنے سے جنگی ہوائی جہازوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور دین اسلام کی ایمان کی قوت کے ساتھ عقلی علوم کا حاصل کرنا ہی موجودہ زمانے میں بقا کا ضامن ہے۔



 


 



160