اسلامیہ کالج پشاور

Posted on at


انیسویں صدی میں سرحد میں تعلیم کا فقدان عام تھا اس وقت صوبے میں جدید تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ اس وجہ سے مسلمان دینی تعلیم عام حاصل کر سکتے تھے صوبہ سرحد میں اسلامی تعلیمی ادارے کے سربراہ عبدالقیوم تھا یہ بہت اچھے آدمی تھے انہوں نے میٹرک کا امتحان پشاور سے پاس کیا تھا اور وہ سرکاری ملازمت سے منسلک تھے یہ پولیٹیکل ایجنٹ بھی رہ چکے تھے انہوں نے سرحد کے مسلمانوں کو تعلیم کا پلیٹ فارم دستیاب کیا



ان کو سرحد کا سر سید احمد خان بھی کہا جاتا تھا یہ سر سید احمد خان کے لقب سے مشہور ہوئے یہ ایک دفعہ محمڈن کانفرس کے صدر بھی منتخب ہوے



عبدالقیوم نے دارالعلوم کی بنیاد رکھی جو ایک سال میں کالج بن گیا انہوں نے کالج کے قیام کے لیے ایک کمیٹی بنائی جو کہ چندہ کمیٹی کے نام سے تھی اس کا مقصد مسلمانوں کے لیے چندہ جمع کرنا تھا ۔کمیٹی نے جلد ہی اپنا مقصد پاتے ہوے مسلمانوں کے لیے بیس لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم جمع کی



چندہ کے حصول کے بعد اسلامیہ کالج  پشاور کے لیے زمین کا حصول بھی ہو گیا تھا اس کا سنگ بنیاد حاجی ترنگ زئی نے رکھا اسلامیہ کالج کی دینی و دنیادی تعلیم اور سیاسی خدمات ناقابل فراموش ہے اس کالج میں طلباء کو دینی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم سے روشناس بھی کیا جاتا ہے



بانی پاکستان قائد اعظم کو اسلامیہ کالج کے طلباء سے دلی محبت تھی اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا


ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے حصے سے کچھ ترکہ اسلامیہ کالج کو دیا جائے اسلامیہ کالج نے مسلمانان ہند کے لیے تعلیم کی راہ ہموار کی اور ان کو پاکستان کی تحریک میں مرکزی کردار ادا کیا اس طرح اس نے اسلام اور پاکستان کے ساتھ عقیدت کا حق ادا کر دیا




About the author

160