سیاسی غلطیاں

Posted on at


سیاسی غلطیاں


ایک معروف و مقبول ضرب المثل ہے کہ گیڈر کی موت جب آتی ہے تو وہ شہر کی طرف رخ کرتا ہے۔ کچھ ایسی ہی حالت حالات حاضرہ میں حکومت کے ناعاقبت  اندیش فیصلوں سے پیدا شدہ ملک کے اندر غیر ریاستی سرگرمیوں سے ہے۔ سیاسی غلطیوں کا نئی حکومت کے بنتے ہی تانا بانا شروع ہے۔  پاکستان مسلم لیگ ن جو حکومتی پارٹی بھی ہے  کے صدر و سربراہ میاں محمد نواز شریف بذات خود ایک نفیس، معتدل مزاج اور سیاست کی پرپیچ باریکیوں سے واقف اور تدبر ، فہم و فراست سے بھرپور شخصیت کے مالک ہیں۔  لیکن ان کی حکومتی پارٹی کے اندر خصوصاً ایسے لوگ جو ان کے قریب ہیں اور اہم ملکی عہدوں پر براجمان ہیں متواتر ایسی ناعاقبت اندیشی سے بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جسے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو، متاوتر سیاسی غلطیاں کر رہے ہیں اور حکومتی اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔  ریاست میں جمہوری نظام کے لئے سیاسی پارٹیاں بھی ایک نظم و ضبط کے تحت بنائی جاتی ہیں اور پارٹیوں میں ایسے لوگوں کو اہم عہدوں کے لئے چنا جاتا ہے جوسیاسی فہم و فراست کے ساتھ معاشرے میں افراد کے ساتھ رکھ رکھاؤ اور میل جول کے گر سے واقف ہوں۔ پارٹی کی ساکھ، نظم وضبط کو متاثر کرنے والوں کے لئے پارٹی کے اندر کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔




ملک کے اندرونی سیاسی ، معاشی، توانائی کا بحران اور امن و عامہ کے مسائل   حالیہ حکومت سے پہلے بھی تھے لیکن کلیدی مسلہ بجلی کے بحران کا ہے جس نے ملکی صنعتی پہیہ جام کر کے معشیت کا برا حال کیا ہوا ہے۔ ان بحرانوں پر قابو پانے کی حکومتی کاوش قابل تحسین ہیں لیکن بجلی پیداواری منصوبوں کو تکمیل کےلئے  وقت درکار ہے۔ گرمی سے بلبلاتے عوام کے لئے وقتی طور پر کوئی وقتی و فوری منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔  جس سے عوام کے دلوں میں حکومتی پارٹی کی قدر و قیمت کم ہوتی جارہی ہے اور عوام کے اندر غصہ و تیش پایا جاتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ بجائے عوامی غصہ و تیش کو ٹھنڈا کرنے کے حل ٹھونڈنے کے ، حکومت اپنی غلطیوں کی روایت کو برقرار رکھے ہوئی ہے۔



 وزیر اطلاعات پرویز رشید  کا طاہر القادری کے بارے میں بیان۔ تفصیل کے لئے لنک پر کلک کریں


حکومتی نظام میں استحکام کی ضمانت کے  لئے عوام کی حمایت درکار ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے عوامی امنگوں کے برخلاف انفرادی فیصلے ٹھونسنا عقل مندی نہیں جو حکومت کو لے ڈوب سکتے ہیں اور ماضی کے واقعات میں ایسا ہو چکا ہے۔ سب سے پہلی سیاسی غلطی سربراہ مملکت کی اپنی ہے جس میں جنرل ریٹائڑ پرویز مشرف جو سابقہ آرمی چیف بھی رہ چکے ہیں اُن کے خلاف سنگین مقدمات کو دائر کرنا ہے اور عدالتوں کے ذریعے   اُن کے ساتھ نارواں سلوک جاری ہے جس نے حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کو اندر سے کشیدہ کیا ہوا ہے جو کسی بھی وقت دہکتے شعلے کو ہوا دے سکتی ہے جو ملک کے مفادات کے لئے کسی طور پر فائدہ مند نہیں اور بگڑتی ہوئی صورت حال میں قصوروار حکومتی پارٹی ہی ہو سکتی ہے جو اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہی ہے۔



، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے بیان نے فوج اور حکومت  میں تعلقات کو کیشدہ کیا ویڈیو دیکھیں


وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے پاک آرمی کے خلاف بیان پر عوامی رردعمل کی ویڈیو دیکھیں


حالیہ ملکی افرتفری کی حالت میں ہمارے متحرم وزیر اطلاعات پروز رشید کی  شعلہ بیانی ملک میں امن و عامہ کو  اور بگاڑ سکتی ہے جو جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے جس پر حیرت بھی اور غصہ بھی ہے ، وزیر موصوف نے کہا کہ جناب طاہرقاردری صاحب کی ملک میں آمد اپنی مرضی سے ہوئی لیکن واپسی قانون کے مطابق ہو گی۔ افسوس در افسوس یاد رہے ان کے قانون کے کالے دھند کا لاھور میں پولیس گردی اور بربریت اور معصول لوگوں کا قتل عام جو سابقہ وزیر رانا ثنا اللہ کے حکم پر کیا گیا اُن کی نظروں میں بے قیمت ہے۔ پولیس کے ذمہدار اہکاروں کو عہدوں سے ہٹانا یا وزیر موصوف کو ہٹانا بغیر کسی مقدمے اور سخت سزا کے ، موجودہ حکمرانوں کے نام نہاد انصاف کا منہ چاٹ رہی ہے۔  ایسی بے موقعہ بیان بازی عوام کو مذید اشتعال دلانے کے سوا اور کچھ نہیں۔



 سابقہ صوبائی وزیرقانون پنجاب راناثناء اللہ عدالتی کیمشن میں  لنک پر کلک کریں


حکومتی پارٹی کے سربراہ  کو پارٹی کے اندر ایسے ناعاقبت اندیش لوگوں کی بے موقعہ بیاں بازی جو سیاسی فہم و فراست سے عاری ہے پر سخت ردعمل کا اظہار کرکے پارٹی سے نکال باہر کرنا چاہیے اگر ان وزیرون کو کوئی پس پردہ قوت کی مشاورت کی  اشیرباد حاصل ہے تو ایسے  غیر ریاستی عناصر کو سامنے لانا چاہیے جو ملک کے اندر افراتفری اور لاقانونیت کو ہوا دے کر ریاستی اداروں کوکمزور کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کو ایسے عناصر میڈیا کے سامنے لاکر عوام میں اعتماد سازی اور حمایت کی فضا کی تنظیم نو کرنی چاہیے۔



160