"نئی نسل کے بگاڑ کا سبب والدین ہے"

Posted on at


میں گھر سے نکلتی ہوں تو میری ماں مجھے پیار کر کے اور ایمانداری کا درس دیتی ہے- میرے ابو مجھے اپنی گرتی صحت کے ساتھ مجھے زمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی درخواست کرتے ہے- اگر مجھ پر کوئی مشکل ا جائے تو وہ نوافل اور دعائیں کرتے ہے مجھ سے زیادہ مشکل میں وہ چلے جاتے ہے- اگر میں اداس ہو تو میری ماں اداس ہو جاتی ہے ان کی آنکھوں میں آنسو ا جاتے ہے- اور اگر میں غصے میں شور کرو تو لہجہ میرے والد کا ٹوٹنے لگتا ہے- پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کے میرے والدین میرے بگاڑ کے ذمہ دار ہو گے وہ والدین جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر میرے لئے دوا کرتے ہے؟؟

 

میری ماں نے مجھ کو چلتے وقت تر آنکھوں سے پیار کیا - میں جب روتی تھی تو میری ماں نے مجھے چپ کروایا-  دعا کو پھونکتے پھونکتے میرے اپر وار دیا- میرے والد نے میرے قدموں میں ہمت کی زمین بچائی ہے اور مجھے دیکھ کر کل کی اس لگائی ہے- لیکن میں یہ دیکھ رہی ہو کے یہ دنیا حرص و ہوس کی دنیا ہے اس دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہے کوئی کسی کا دشمن اور کوئی مطلب کا دوست ہے- اس دنیا میں انسان کی قسمت لگتی ہے- سب کے لہجے الگ الگ ہوتے ہے- میں اس دنیا میں بٹہکا بھی بہت پر آگے چلنے کی امید سے بڑھتی بھی رہی- میں اپنے گھر کی تاریکی کا تارا تھا میں مستقبل کا نعرنہ ہو- لیکن میں تو آج شرمندگی کا چہرہ ہوں اور ایک بند گلی میں ٹھہری ہو-

آج کال گھر سے نکلنے والے نوواجوں کے لئے بٹکنے کے لئے بہت سے راستے ہے وہ اپنے کولج تک بھی جائے تو اس  راستے میں بہت سی بٹھکنے والی چیزیں ہے تو اب کس کس موڑ پر والدین ان کا ہاتھ تھامیں ماں کس کس موڑ پر اسے واسطے دے سکتی ہے- آج کال بد نام ثقافت ہے، بے نام کلچر، بے عزم منزل، اور ان سب سے آگے ہمارع بے لگام میڈیا جن کا ہم چاہے تو بہت کچھ کر سکتے ہے لیکن ہم میں سے کوئی اس کام کو بند کروانے کے لئے آگے نہیں بڑھ رہا-

کھیل کی جگہ اور تفریح کی جگہ آپکو بہت کم ملے گی پر اپ کو ہر جگہ ویڈیو گیمز کی دکانیں، جوۓ کے اڈے آباد نظر آۓ گے- ہماری نوجوان نسل آپکو ان جگاہوں پر بہت زیادہ نظر آۓ گی- اور اگر یہاں نظر نہ آئی تو لڑکیوں کے پیچھے آوارہ گردی کرتے ہوۓ لازمی نظر آۓ گی-  یہ سب چیزیں نئی نسل بگڑتی ہے ہمارے والدین نہیں----- آج کل کے دور میں معاشرتی نا انصافی نے اتنا مجبور اور بے حس کر رکھا ہے کے ڈاکہ ڈالنا لازمی ہو گیا ہے یہ پستول پکڑ کار گلی گلی میں جا کر لوگوں کو لوٹنے کا دل چاہتا ہے- امیر کی کن پٹی پی پستول رکھ کر پیسے لینے کو والدین نے نہیں کہا تھا مگر بے انصاف، لا قانون اور ظالم معاشرتی نے اس کو درست قرار دے دیا ہے-

پہلے وقتوں میں تو ڈگری بھی بہت باری چیز تھی لیکن آج کال یہ ڈگری بھی ہمیں ایک وقت کی روٹی نہیں دے سکتی- میری ماں نے مجھے اپنی لوری میں اخلاقیات کا درس دیا تھا مگر جب میں بے اخلاق امیر زادوں کو سر فراز دیکھتی ہوں تو میرا خون جلنے لگتا ہے- اپنی حدوں سے نکلنے کی آگ مجھے جلانے لگتی ہے- جب انصاف کے ایوانوں میں کسی کی آواز سنائی نہی دیتی- جب بھوک کے ہاتھوں مجبور والدین اپنی اولاد کو ریل کی پٹھرری پے لگانے لگتے ہیں- جب ماں کی کھانسی کے لئے پیسے نہیں ملتے تو ہم کو ڈھاکہ ڈالنا پڑتا ہے-

راستے بدلنے پڑتے ہیں- رشتوں اور احترام کی دھجیاں ضرور اڑتی ہیں مگر یہاں بھی نقصان والدین کا ہے- جن کی عمر کی پونجی لٹا دی جاتی ہے- میں تو انے والے مستقبل کا روشن ستارہ تھا- لیکن میں اب منزل کے دور سہی میں بے شق بے بس اور مجبور سہی- آج میرے پروں میں ظلم کی بیری ہے اور میرے ہاتھوں میں درد کے کانٹے ہیں- آج میں چلتا ہو تو راستے میں میرے ساتھ ساتھ اندھیریں چلتے ہے- میں آج اس معاشرے میں بدنام اور بے نام ہوں- میں آج بھی اتنی ہمت رکھتی ہو کے اس شہر کو روشن کر ڈالو پر یہاں کے بے انصاف لوگ مجھے ایسے کرنے نہیںدیتے-

 



About the author

hamnakhan

Hamna khan from abbottabad

Subscribe 0
160