ٹیوشن و کوچنگ کلچر کا فروغ

Posted on at


کیوں ہمیں اضافی ٹیوشن کی ضرورت ہے؟
ہمارے باپ دادا تو کہتے ہیں وہ تو تعلیم صرف اسکول میں حاصل کرتے تھے، وہ تو کبھی کسی ٹیوشن یا کوچنگ سینٹر نہیں گئے، اصل میں 1970 سے پہلے تک ٹیوشن یا کوچنگ سینٹرز نہیں ہوا کرتے تھے- کچھ پرائویٹ اساتذہ ہوا کرتے تھے جو پڑھائی میں کمزور بچے کو پڑھا دیا کرتے تھے- 90 کی دہائی میں یہ ٹیوشن حاصل کرنے کے بخار کو آگ لگ گئی



تو کیا وجہ ہے جو یہ ٹیوشن سسٹم بے پناہ ترقی کر گیا؟
کیوں ہر صبح جب دوکانوں کے شٹر اٹھاۓ جاتے ہیں تو ہر دسواں شٹر کوئی ٹیوشن یا کوچنگ سینٹر ثابت ہوتا ہے؟
کیا آج کل کے بچے اپنے ماں باپ سے کم عقلمند ہیں ؟
یا آج کل کا تعلیمی نصاب اتنا جدید ہے کہ یہ کسی اور دنیا سے تعلق رکھتا ہے؟
یا یہ اسکولوں. اساتذہ، والدین یا تو پھر بچوں کا اپنا قصور ہے؟
اساتذہ کا کردار اس ٹیوشن و کوچنگ کلچر کو فروغ دینے میں کافی زیادہ ہے- بہت سارے اساتذہ کو آج کل اسکول انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ پیسے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ بچوں کو اپنے ہی اسکول میں شام کو ٹیوشن حاصل کرنے کے لئے آمادہ کر سکیں- طالب علموں کی کوشسش ہوتی ہے کہ ان کو اساتذہ میں سب سے بہترین اساتذہ ملیں، ان کا اسکول سبھی اسکولوں میں سب سے اچھا ہو لیکن افسوس کی بات ہے، نام نہاد بہترین اساتذہ صرف ٹیوشن و کوچنگ کی مارکیٹ چمکانے میں، یا تو پھر اسکولوں کی دوکان چمکانے میں مصروف ہیں
کچھ اسکولوں کی پالیسی ہے اساتذہ کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانے کی اجازت نہیں ہے- لیکن قوانین کی کون پابندی کرتا ہے، اساتذہ پھر بھی پڑھاتے ہیں اور اسکولوں کے ہیڈ یا پرنسپلز نے کبھی اس طرح کی خلاف ورزیوں کے خلاف کروائی نہیں کی- حکومتی اسکولوں کی حالت اس سے بھی بدتر ہے، بہت سے اسکولوں میں پورے اساتذہ ہی موجود نہیں ہیں اور کلاس رومز بچوں اور خالی- جب اساتذہ موجود نہیں تو بچے کلاس میں کیا کریں گے؟ اس طرح کے اسکولوں کے طلباء کو ماجبوراً ٹیوشن و کوچنگ کے چکر کاٹنے اور پیسے ضائع کرنے پڑتے ہیں



آخر میں اس سب میں قصور طالب علموں کا بھی ہے- ہم میں سے کئی کے لئے ایک رجحان بن گیا ہے، اسکول میں پڑھائی نہ کرنا اور پھر قیمتی و مفید ٹائم کوچنگ سینٹرز میں ضائع کرنا- لیکن کیا ہمیں پروا ہے؟ جسے کہ ہم یہ جانتے نہیں ہیں، ہم سمجھتے نہیں ہیں کہ کس طرح ہم اپنا ٹائم ضائع کر رہے ہیں ادھر ادھر کے کوچنگ سینٹرز میں کس طرح ہمارے اساتذہ، ہمارے والدین کی جیب سے پیسے ھیںچ رہے ہیں اور ایسا رویہ اختیار کیے ہوے ہیں، جسے ہم طالبعلم نہیں ان کے گاہک ہیں اور وہ اپنی دوکان چمکا رہے ہیں



About the author

160