مچھروں سےکیسے بچا جائے

Posted on at



مچھر ایک ایسا کیڑا ھے جس سے تمام انسان، حیوان، چرند،پرند غرض ھر کوئی نالاں ھے۔ ساری دنیا میں کوئی بھی مچھروں کو پسند نہیں کرتا اور نہ ھی کوئی پسند کر سکتا ھے۔ یہ ھماری راتوں کی نیند کے دشمن ہیں۔ جب ھم گہری نیند کی وادی میں کھوئے حسین خواب دیکھ رھے ھوتے ہیں یہ آکر ھماری نیند خراب کر دیتے ہیں اور خوابوں کے سلسلے کو توڑ دیتے ہیں۔



مچھر صرف ھماری رات کی نیند کے دشمن ھی نہیں بلکہ یہ بہت سی بیماریاں پھیلانے کا بھی سبب بنتے ہیں۔ عام ملیریا بخار سے لے کر مغربی نیل بخار تک پھیلانے کا سبب یہی مچھر ہیں۔ پاکستان میں بھی ڈینگی بخار کے حوالے سے ان مچھروں کو کافی شہرت ملی ھے۔ انسان تو انسان اب تو جانور بھی ان مچھروں سے خوف کھا کر نفرت کرنے لگے ہیں۔



یہ جان کر آپ کو شاید حیرت ھو کہ اس زمین پر مچھروں کی قریباً ستائیس سو اقسام پائی جاتی ہیں۔ مچھروں کی اکثر اقسام انسان اور جانور کو کاٹ کر خوشی محسوس کرتی ہیں۔ چند قسمیں ایسی بھی ہیں جنہیں پھلوں کا عرق اور پھولوں کا رس پسند ھے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو نمرود کے انجام کے بعد سے لے کر دوسری جنگوں میں بھی مچھروں نے بڑا اھم کردار ادا کیا ھے۔



نمرود سے لے کر سکندر اعظم، نپولین، ہٹلر سب کو اس دشمن سے واسطہ پڑا ھے۔ ان مچھروں کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اپنے پسندیدہ رہائشی علاقوں کو چھوڑنا پڑا ھے اور جب یہ علاقے انسانوں سے خالی ھو گئے تو ان جگہوں پر جنگلی جانوروں نے بسیرا کر لیا۔


مچھر صرف خون ھی نہیں پیتے بلکہ یہ پھولوں اور پھلوں کا رس بھی پیتے ہیں۔ جس سے انہیں شکر حاصل ھوتی ھے جو کہ انہیں اڑنے میں مدد دیتی ھے۔ مچھروں کی افزائش گندے جوھڑوں اور تالابوں میں ھوتی ھے۔ ان تالابوں میں مینڈک یا مچھلیاں موجود ھوں تو یہ مچھروں کے بچوں کو کھا جاتے ہیں اس لئے جہاں مینڈک مچھلیاں نہ ھوں وہاں مچھر زیادہ پیدا ھوتے ہیں۔



پچھلے چند برسوں میں ڈینگی اور ملیریا سے بچاؤ کے سلسلے میں اس طرح کے مشورے سننے کو ملے ہیں کہ گندہ پانی نہ کھڑا ھونے دیں۔ ٹینکیوں کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھیں۔ گلی محلوں کو صاف ستھرا رکھیں۔



مچھروں سے بچاؤ کے لئے سپرے ضرور کریں۔ مچھر تلسی کے پودے کے قریب نہیں آتے اس لئے گھروں میں تلسی کا پودا ضرور رکھیں۔ اگر کسی بھی طریقے سے مچھر نہ بھاگیں تو مچھر کے کاٹے پر لیموں کا رس یا ادرک رگڑنے سے اس کی تکلیف کم کی جا سکتی ھے۔ اور اس سے مچھر کاٹے کی جگہ پر سوزش بھی نہیں ھوتی۔




About the author

160