میرا راؤ نعمان علی اور آج میں آپ کو مری میں گزارے ہوے اپنے سکول ٹرپ کے بارے میں بتاؤں گا میں اس وقت ساتویں کلاس میں تھا یہ 2004 کی بات ہے ہمارے سکول ٹیچر نے ہمارے لیے اس ٹرپ کا بندوبست کیا تھا ہم آٹھ طالب علم تھے
جنہوں نے مری کے لیے جانا تھا ہم نے فی کس ایک ہزار روپے جمع کراے تھے باقی خرچہ حکومت پاکستان نے دیا تھا سکول کی طرف سے ٹرپ ایک ہفتے پر مشتمل تھا یہ ٹرپ مری میں بطور سکاؤٹ جارہا تھا جس میں ہمیں سکاؤٹس کے متعلق معلومات دی گئی تھی
ہم سب نے اپنی دستاویزات اور گھر سے اجازت نامہ سکول میں جمع کراو دیا تھا ہم نے ملتان سے شام چار بجے چھ جون کو بزریعہ ٹرین جانا تھا ہم سب لوگ ٹائم کے مطابق تین بجے ملتان کینٹ ریلوے اسٹیشن پر پہچ گے
میرے ابو مجھے ملتان کینٹ ریلوے اسٹیشن پر چھوڑنے گے تھے اسٹیشن پر زیادہ مسافروں کا رش تھا جس ٹرین میں ہم نے جانا تھا وہ پلیٹ فارم نمبر دو پر لگی ہوئی تھی جس کا نام مہر ایکسپریس تھا اس کے چلنے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا تمام لوگ اسٹیشن پر پہچ چکے تھے ہم لوگ اسٹیشن پر چہل قدمی کر رہے تھے اسٹیشن پر بہت زیادہ رش تھا ملتان اسٹیشن پاکستان کا ساتواں بڑا اسٹیسن ہے
یہاں سے ٹرین دوسر ے شہروں کو بھی جاتی ہیں اسٹیسن پر زہادہ گرمی تھی تقریبا دوپہر کے چار بج چکے تھے اور ٹرین نے ہارن دیا اور ہم لوگ ٹرین میں سوار ہوگے اور ٹرین چل پڑی میری سیٹ قدرتی طور پر کھڑکی کے ساتھ تھی ٹرین نے سپیڈ پکڑی اور تقریبا ایک گھنٹے میں ہم لوگ دریائے چناپ پر پہچ گے ان دنوں دریائے چناب پانی سے بھرا ہوا تھا